كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار 135. بَاب اسْتِجَابَةِ الدُّعَاءِ فِي غَيْرِ قَطِيعَةِ رَحِمٍ باب: قطع رحمی کے علاوہ کی دعا مقبول ہوتی ہے
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتا ہے اللہ اس کی دعا قبول کرتا ہے، یہ دعا یا تو دنیا ہی میں قبول ہو جاتی ہے یا یہ دعا اس کے نیک اعمال میں شامل ہو کر آخرت کے لیے ذخیرہ بن جاتی ہے، یا مانگی ہوئی دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ مانگی گئی دعا کا تعلق کسی گناہ کے کام سے نہ ہو، نہ ہی قطع رحمی کے سلسلہ میں ہو اور نہ ہی جلد بازی سے کام لیا گیا ہو“، صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! جلد بازی سے کام لینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ یہ کہنے لگے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی لیکن اللہ نے میری دعا قبول نہیں کی“ ۱؎۔
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12906) (صحیح) (سند میں ”لیث بن أبی سلیم“ ضعیف اور ”زیاد“ مجہول ہیں، اس لیے ”وإما أن يكفر عنه من ذنوبه بقدر ما دعا“ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، لیکن بقیہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الضعیفة 4483، وصحیح الجامع 5678، 5714)»
وضاحت:
۱؎: کسی بندے کی دعا اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے مطابق دنیا ہی میں قبول کرتا ہے یا آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ بنا دیتا ہے، بندے کو حکم ہے کہ بس دعا کرتا رہے، باقی اللہ پر ڈال دے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بندہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتا ہے کہ اس کے بغل کا حصہ ظاہر ہو جاتا ہے پھر اللہ رب العالمین سے اپنی ضرورت مانگتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے، شرط یہ ہے کہ اس نے جلد بازی سے کام نہ لیا ہو“، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! جلد بازی سے کام لینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ یہ کہنے لگے کہ میں نے مانگا اور باربار مانگا لیکن مجھے کچھ نہ دیا گیا“۔
زہری نے یہ حدیث ابن ازہر کے آزاد غلام ابو عبید سے اور ابو عبید نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، (اس کے الفاظ یوں ہیں) آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لے۔ یعنی یہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی پھر بھی میری دعا قبول نہ ہوئی۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14125) (صحیح) (سند میں ”یحییٰ بن عبید اللہ“ ضعیف راوی ہے، اور اس حدیث میں دونوں ہاتھ کے اٹھانے کا ذکر ہے، جو صحیح نہیں ہے، اور اصل حدیث صحیح ہے، اگلے سیاق وسند سے یہ حدیث صحیح ہے، الضعیفة 4483)»
وضاحت:
۱؎: اور مؤلف کی زہری کی روایت سے ابوہریرہ کی یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن اللہ تعالیٰ کی بہترین عبادت ہے“۔
اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13488) (ضعیف) (سند میں ”سمیر بن نھار“ میں بہت کلام ہے)»
ابوسلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص یہ غور فکر کر لے کہ وہ کس چیز کی تمنا کر رہا ہے، کیونکہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کی آرزؤں میں سے کون سی آرزو و تمنا لکھ لی جائے گی (یا مقدر کر دی جائے گی)“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19577) (ضعیف) (سند میں ”عمر بن ابی سلمہ بن عبد الرحمن“ ضعیف ہیں، اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن تابعی ہیں، مسند احمد (2/357، 387) میں یہ حدیث گرچہ مرفوع متصل ہے، مگر عمر بن ابی سلمہ ہی کے واسطے سے ہے)»
وضاحت:
۱؎: یعنی تمنا و آرزو کرنے سے پہلے انسان یہ سوچ لے کہ اسے ایسی چیز کی تمنا کرنی چاہیئے جو اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں مفید اور کارآمد ہو۔ |