كتاب النكاح کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل 53. بَابُ: رَضَاعِ الْكَبِيرِ باب: بڑے کو دودھ پلانے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! سالم جب میرے پاس آتے ہیں تو میں (اپنے شوہر) ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر (ناگواری) دیکھتی ہوں (اور ان کا آنا ناگزیر ہے) ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم انہیں دودھ پلا دو“، میں نے کہا: وہ تو ڈاڑھی والے ہیں، (بچہ تھوڑے ہیں)، آپ نے فرمایا: ”(پھر بھی) دودھ پلا دو، دودھ پلا دو گی تو ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر جو تم (ناگواری) دیکھتی ہو وہ ختم ہو جائے گی“، سہلہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! دودھ پلا دینے کے بعد پھر میں نے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر کبھی کوئی ناگواری نہیں محسوس کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 7 (1453)، (تحفة الأشراف: 17841)، مسند احمد (6/174) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوحذیفہ سہلہ رضی الله عنہا کے شوہر تھے، انہوں نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب متبنی کے سلسلہ میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی، پھر جب تبنی حرام قرار پایا تو ابوحذیفہ رضی الله عنہ کو یہ چیز ناپسند آئی کہ سالم ان کے گھر میں پہلے کی طرح آئیں، یہی وہ مشکل تھی جسے حل کرنے کے لیے سہلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہا: میں سالم کے اپنے پاس آنے جانے سے (اپنے شوہر) ابوحذیفہ کے چہرے میں کچھ (تبدیلی و ناگواری) دیکھتی ہوں، آپ نے فرمایا: ”تم انہیں اپنا دودھ پلا دو“، انہوں نے کہا: میں انہیں کیسے دودھ پلا دوں وہ تو بڑے (عمر والے) آدمی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ بڑی عمر کے ہیں“، اس کے بعد وہ (دودھ پلا کر پھر ایک دن) آئیں اور کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس کے بعد ابوحذیفہ کے چہرے پر کوئی ناگواری کی چیز نہیں دیکھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 7 (1453)، سنن النسائی/النکاح 36 (1943)، (تحفة الأشراف: 17484)، مسند احمد (6/38) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوحذیفہ کی بیوی کو حکم دیا کہ تم ابوحذیفہ کے غلام سالم کو دودھ پلا دو تاکہ ابوحذیفہ کی غیرت (ناگواری) ختم ہو جائے۔ تو انہوں نے انہیں دودھ پلا دیا اور وہ (بچے نہیں) پورے مرد تھے۔ ربیعہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں: یہ رخصت صرف سالم کے لیے تھی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17452)، مسند احمد (6/249) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی دوسرے بڑے شخص کو دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہو گی، جمہور کی رائے یہی ہے کہ یہ سالم کے ساتھ خاص تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول! سالم ہمارے پاس آتا جاتا ہے (اب وہ بڑا ہو گیا ہے) جو باتیں لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی سمجھتا ہے اور جو باتیں لوگ جانتے ہیں وہ بھی جان گیا ہے (اور اس کا آنا جانا بھی ضروری ہے) آپ نے فرمایا: ”تو اسے اپنا دودھ پلا دے تو اپنے اس عمل سے اس کے لیے حرام ہو جائے گی“۔ ابن ابی ملیکہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو سال بھر کسی سے بیان نہیں کیا، پھر میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی (اور اس کا ذکر آیا) تو انہوں نے کہا: اس حدیث کو بیان کرو اور اس کے بیان کرنے میں (شرماؤ) اور ڈرو نہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 7 (1453)، (تحفة الأشراف: 17464)، مسند احمد (6/201) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ابوحذیفہ اور ان کی بیوی (بچوں) کے ساتھ ان کے گھر میں رہتے تھے۔ تو سہیل کی بیٹی (سہلہ ابوحذیفہ کی بیوی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہا کہ سالم لوگوں کی طرح جوان ہو گیا ہے اور اسے لوگوں کی طرح ہر چیز کی سمجھ آ گئی ہے اور وہ ہمارے پاس آتا جاتا ہے اور میں اس کی وجہ سے ابوحذیفہ کے دل میں کچھ (کھٹک) محسوس کرتی ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے دودھ پلا دو، تو تم اس پر حرام ہو جاؤ گی“ تو انہوں نے اسے دودھ پلا دیا، چنانچہ ابوحذیفہ کے دل میں جو (خدشہ) تھا وہ دور ہو گیا، پھر وہ لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (دوبارہ) آئیں اور (آپ سے) کہا: میں نے (آپ کے مشورہ کے مطابق) اسے دودھ پلا دیا، اور میرے دودھ پلا دینے سے ابوحذیفہ کے دل میں جو چیز تھی یعنی کبیدگی اور ناگواری وہ ختم ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبھی ازواج مطہرات ۱؎ نے اس بات سے انکار کیا کہ کوئی ان کے پاس اس رضاعت کا سہارا لے کر (گھر کے اندر) آئے، مراد اس سے بڑے کی رضاعت ہے اور سب نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: قسم اللہ کی! ہم سمجھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہلہ بنت سہیل کو (سالم کو دودھ پلانے کا) جو حکم دیا ہے وہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے سالم کی رضاعت کے سلسلہ میں خاص تھا۔ قسم اللہ کی! اس رضاعت کے ذریعہ کوئی شخص ہمارے پاس آ نہیں سکتا اور نہ ہمیں دیکھ سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «النکاح 10 (2061) مطولا، (تحفة الأشراف: 18377) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عائشہ رضی الله عنہا کے علاوہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی تھیں کہ سبھی ازواج مطہرات نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس رضاعت (یعنی بڑے کی رضاعت) کو دلیل بنا کر ان کے پاس (یعنی کسی بھی عورت کے پاس) جایا جائے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: قسم اللہ کی! ہم اس رخصت کو عام رخصت نہیں سمجھتے، یہ رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص سالم کے لیے دی تھی، اس رضاعت کو دلیل بنا کر ہم عورتوں کے پاس کوئی آ جا نہیں سکتا اور نہ ہی ہم عورتوں کو دیکھ سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 7 (1454)، سنن ابن ماجہ/النکاح 37 (1947)، (تحفة الأشراف: 18274)، مسند احمد (6/312) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|