(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن عبدة، عن هشام، عن ابيه، عن زينب بنت ابي سلمة، عن ام حبيبة، انها قالت: يا رسول الله هل لك في اختي؟ قال:" فاصنع ماذا؟" قالت: تزوجها، قال:" فإن ذلك احب إليك؟ قالت: نعم، لست لك بمخلية واحب من يشركني في خير اختي، قال:" إنها لا تحل لي" , قالت: فإنه قد بلغني انك تخطب درة بنت ام سلمة، قال: بنت ابي سلمة، قالت: نعم، قال:" والله لو لم تكن ربيبتي ما حلت لي إنها لابنة اخي من الرضاعة فلا تعرضن علي بناتكن ولا اخواتكن". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ لَكَ فِي أُخْتِي؟ قَالَ:" فَأَصْنَعُ مَاذَا؟" قَالَتْ: تَزَوَّجْهَا، قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ يَشْرَكُنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، قَالَ:" إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي" , قَالَتْ: فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَخْطُبُ دُرَّةَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ: بِنْتُ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" وَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي مَا حَلَّتْ لِي إِنَّهَا لَابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو میری بہن میں کچھ رغبت (دلچسپی) ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(اگر دلچسپی ہو) تو میں کیا کروں؟“ انہوں نے کہا: آپ اس سے شادی کر لیں، آپ نے کہا: یہ اس لیے کہہ رہی ہو کہ تمہیں یہ زیادہ پسند ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی تنہا بیوی نہیں ہوں اور مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو میری ساجھی دار بنے وہ میری اپنی سگی بہن ہو، آپ نے فرمایا: ”وہ میرے لیے حلال نہیں ہے“، انہوں نے کہا: مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ درہ بنت ام سلمہ سے شادی کرنے والے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”(تم) ام سلمہ کی بیٹی سے (کہہ رہی ہو)؟“ انہوں نے کہا: ہاں (میں انہی کا نام لے رہی ہوں)، آپ نے فرمایا: ”قسم اللہ کی! اگر وہ میری ربیبہ میری گود کی پروردہ نہ ہوتی تب بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی (وہ تو دو حیثیتوں سے میرے لیے حرام ہے ایک تو اس کی حیثیت میری بیٹی کی ہے اور دوسرے) وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (یعنی میری بھتیجی ہے)، تو (آئندہ) اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو میرے اوپر (شادی کے لیے) پیش نہ کرنا“۔