كتاب النكاح کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل 20. بَابُ: النَّهْىِ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ باب: اپنے (کسی دینی) بھائی کے پیام پر پیام دینے کی ممانعت کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی دوسرے کے پیغام پر پیغام نہ دے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 6 (1412)، سنن الترمذی/البیوع 57 (1292)، (تحفة الأشراف: 8284)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح 45 (5142)، سنن ابی داود/النکاح 18 (2081)، سنن ابن ماجہ/النکاح 10 (1867)، موطا امام مالک/النکاح 1 (2)، مسند احمد 2/124)، سنن الدارمی/النکاح 7 (2222) ویأتي برقم: 3245 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگر پیغام پر پیغام دینے والے کو پہلے پیغام سے متعلق علم ہے تو اس کا یہ پیغام دینا کسی صورت میں درست نہیں ہو گا، البتہ لاعلمی کی صورت میں معذور سمجھا جائے گا، چونکہ پیغام پر پیغام دینے سے مسلمانوں میں باہمی دشمنی اور عداوت پھیلے گی، اور اسلامی معاشرہ کو اسلام، ان عیوب سے صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے پیغام پر پیغام دینا اسلام کی نظر میں حرام ٹھہرا تاکہ بغض و عداوت سے اسلامی معاشرہ پاک و صاف رہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دھوکہ دینے کیلئے) چیزوں کی قیمت نہ بڑھاؤ ۱؎، کوئی شہری دیہاتی کا مال نہ بیچے ۲؎، اور کوئی اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرے، اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام دے، کوئی عورت اپنی بہن (سوکن) کے طلاق کی طلب گار نہ بنے کہ اس کے برتن میں جو کچھ ہے پلٹ کر خود لے لے“ ۳؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 58 (2140)، الشروط 8 (2723)، النکاح 45 (5144)، صحیح مسلم/النکاح 6 (1413)، سنن ابی داود/النکاح 18 (2080) مختصراً، سنن الترمذی/النکاح 38 (1134) مختصراً، سنن ابن ماجہ/النکاح 10 (1867) مختصراً، (تحفة الأشراف: 13123)، مسند احمد (2/238، 274)، سنن الدارمی/النکاح 7 (2221) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «نجش» اس بیع کو کہتے ہیں کہ جس میں سامان کی تشہیر اور قیمت میں اضافہ کی غرض سے سامان کی خوب خوب تعریف کی جائے، یا سامان کا بھاؤ اس کی خریداری کی نیت کئے بغیر بڑھایا جائے۔ ۲؎: یعنی اس کے سامان کی فروخت کے لیے دلالی نہ کرے، کیونکہ دلالی کی صورت میں دیگر شہریوں کو ضرر لاحق ہو گا، جب کہ دیہاتی اگر خود سے بیچے تو سستی قیمت میں بیچے گا۔ ۳؎: یعنی یہ خیال نہ کرے کہ جب سوکن مطلقہ ہو جائے گی، اور شوہر سے محروم ہو جائے گی تو اس کا حصہ خود اسے مل جائے گا، کیونکہ جس کے نصیب میں جو لکھا جا چکا ہے وہی ملے گا، پھر سوکن کے حق میں ناحق طلاق کی درخواست کا کیا فائدہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 13968)، موطا امام مالک/النکاح 1 (1)، مسند احمد (2/462) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھائی کہیں نکاح کا پیغام دے چکا ہے، تو کوئی دوسرا مسلمان بھائی اس جگہ جب تک کہ نکاح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہ ہو جائے (نیا) پیغام نہ دے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 13372) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی انتظار کرے، اگر وہ نکاح کر لیتا ہے تو یہ پیغام نکاح ترک کر دے، اور اگر وہ ترک کر دیتا ہے تو پیغام بھیجے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر کوئی دوسرا پیغام نکاح نہ دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 14545)، مسند احمد (2/489) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ
|