كتاب النكاح کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل 66. بَابُ: الْقِسْطِ فِي الأَصْدِقَةِ باب: مہر کی ادائیگی میں عدل و انصاف سے کام لینے کا بیان۔
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے (ام المؤمنین) عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء» ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے، تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو (النساء: ۳) کے بارے میں سوال کیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ ساجھی ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو، اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کیے نکاح کرنا چاہتا ہو یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو، چنانچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا۔ اگر وہ انصاف سے کام لیں اور انہیں اونچے سے اونچا مہر ادا کریں تو نکاح کر سکتے ہیں ورنہ فرمان رسول ہے کہ ان کے علاوہ جو عورتیں انہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لیں۔ عروہ کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان یتیم بچیوں کے متعلق مسئلہ پوچھا تو اللہ نے آیت «ويستفتونك في النساء قل اللہ يفتيكم فيهن» سے لے کر «وترغبون أن تنكحوهن» ”آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ خود اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے، اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے، اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو (النساء: ۱۲۷) تک نازل فرمائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے «وما يتلى عليك في الكتاب» جو فرمایا ہے اس سے پہلی آیت: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء» مراد ہے۔ اور دوسری آیت میں فرمایا: «وترغبون أن تنكحوهن» تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری نگہداشت و پرورش میں ہوتی ہے اور کم مال والی اور کم خوبصورتی والی ہوتی ہے اسے تو تم نہیں چاہتے تو اس کی بنا پر تمہیں ان یتیم لڑکیوں سے بھی شادی کرنے سے روک دیا گیا ہے جن کا مال پانے کی خاطر تم ان سے شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 7 (2494)، والوصایا 21 (2763)، وتفسیر سورة النساء 1 (4576)، والنکاح1 (5064)، 16 (5092)، 19 (5098)، 36 (5128)، 37 (5131)، 43 (5140)، والحیل 8 (6965)، صحیح مسلم/التفسیر 1 (3018)، سنن ابی داود/النکاح 13 (2068) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس (یعنی مہر) کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش ۱؎ کا مہر باندھا جس کے پانچ سو درہم ہوئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 13 (1426)، سنن ابی داود/النکاح 29 (2105)، سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1886)، (تحفة الأشراف: 17739)، مسند احمد (6/93، 94)، سنن الدارمی/النکاح 18 (2245) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک نش بیس درہم کا ہوتا ہے، یا اس سے ہر چیز کا نصف مراد ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں باحیات تھے اس وقت مہر دس اوقیہ ۱؎ ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 14630)، مسند احمد (2/367) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو سن لو عورتوں کے مہروں میں غلو نہ کرو کیونکہ اگر یہ زیادتی دنیا میں عزت کا باعث اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنی کسی بیوی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ رکھا اور نہ ہی آپ کی کسی بیٹی کا اس سے زیادہ رکھا گیا، آدمی اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے جس سے اس کے دل میں نفرت و عداوت پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ کہنے لگتا ہے کہ میں تو تمہاری وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں میں خالص عربی النسل لڑکا نہ تھا اس لیے میں «عرق القربہ» کا محاورہ سمجھ نہ سکا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دوسری بات یہ بتائی کہ جب کوئی شخص تمہاری لڑائیوں میں مارا جاتا ہے یا مر جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں: وہ شہید کی حیثیت سے قتل ہوا یا شہادت کی موت مرا، جب کہ اس کا امکان موجود ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پیچھے یا پہلو میں سونا چاندی لاد رکھا ہے اور مجاہدین کے ساتھ نکلنے سے اس کا مقصود تجارت ہو۔ تو تم ایسا نہ کہو بلکہ اس طرح کہو جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے: جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے یا مر جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 29 (2106) مختصرا، سنن الترمذی/النکاح 23 (1114) مختصراً، سنن ابن ماجہ/النکاح 17 (1887) مختصراً، مسند احمد (1/40، 41، 48، سنن الدارمی/النکاح 18 (2246) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب وہ سر زمین حبشہ میں تھیں، ان کی شادی نجاشی بادشاہ نے کرائی اور ان کا مہر چار ہزار (درہم) مقرر کیا۔ اور اپنے پاس سے تیار کر کے انہیں شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس (حبشہ میں) کوئی چیز نہ بھیجی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (دوسری) بیویوں کا مہر چار سو درہم تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح20 (2086)، 29 (2107)، (تحفة الأشراف: 15854)، مسند احمد (6/427) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|