كتاب الزكاة کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 1. بَابُ: وُجُوبِ الزَّكَاةِ باب: زکاۃ کی فرضیت کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت فرمایا: ”تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو، تو جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن و رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر (زکاۃ) فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں بانٹ دیا جائے گا، اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو پھر مظلوم کی بد دعا سے بچو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 1 (1395)، 41 (1458)، 63 (1496)، المظالم 10 (2448)، المغازی 60 (4347)، والتوحید 1 (7372)، صحیح مسلم/الإیمان 7 (19)، سنن ابی داود/الزکاة 4 (1584)، سنن الترمذی/الزکاة 6 (625)، البر 68 (2014)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 1 (1783)، (تحفة الأشراف: 6511)، مسند احمد 1/233، سنن الدارمی/الزکاة 1 (1655)، 9 (671)، ویأتی عند المؤلف فی باب 46 برقم2523 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس طرح کہ زکاۃ کی وصولی میں ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ ہی اس کی تقسیم میں، مثلاً کسی سے اس کا بہت اچھا مال لے لو یا کسی کو ضرورت سے زیادہ دے دو اور کسی کو کچھ نہ دو کہ وہ تم سے دکھی ہو کر تمہارے حق میں بد دعا کرے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں آپ کے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ بار یہ قسم کھائی کہ نہ میں آپ کے قریب اور نہ آپ کے دین کے قریب آؤں گا۔ اور اب میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ کوئی چیز سمجھتا ہی نہیں ہوں سوائے اس چیز کے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مجھے سکھا دی ہے، اور میں اللہ کی وحی کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز دے کر آپ کو ہمارے پاس بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسلام کے ساتھ“، میں نے پوچھا: اسلام کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ ہیں کہ تم کہو کہ میں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا، اور شرک اور اس کی تمام آلائشوں سے کٹ کر صرف اللہ کی عبادت کے لیے یکسو ہو گیا، اور نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11388)، مسند احمد 5/4، 5، ویأتي عند المؤلف، بأرقام: 2567، 2569، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الحدود 2 (2536) (حسن الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
ابو مالک اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کامل وضو کرنا آدھا ایمان ہے، الحمدللہ ترازو کو بھر دیتا ہے۔ اور سبحان اللہ اور اللہ اکبر آسمانوں اور زمین کو (ثواب) سے بھر دیتے ہیں۔ اور نماز نور ہے، اور زکاۃ دلیل ہے، اور صبر روشنی ہے، اور قرآن حجت (دلیل) ہے تیرے حق میں بھی، اور تیرے خلاف بھی“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطھارة5 (280)، (تحفة الأشراف: 2163)، مسند احمد 5/342، 343، سنن الدارمی/الطہارة2 (679)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطھارة1 (223)، سنن الترمذی/الدعوات86 (3517) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ اور ابوسعید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن خطبہ دیا۔ آپ نے تین بار فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے“، پھر آپ نے سر جھکا لیا تو ہم سے ہر شخص سر جھکا کر رونے لگا، ہم نہیں جان سکے آپ نے کس بات پر قسم کھائی ہے، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، آپ کے چہرے پر بشارت تھی جو ہمیں سرخ اونٹ پانے کی خوشی سے زیادہ محبوب تھی، پھر آپ نے فرمایا: ”جو بندہ بھی پانچوں وقت کی نماز پڑھے، روزے رمضان رکھے، اور زکاۃ ادا کرے، اور ساتوں کبائر ۱؎ سے بچے تو اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے، اور اس سے کہا جائے گا: سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4079، 13509)، مسند احمد 3/79 (ضعیف) (اس کے راوی صہیب عتواری لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: ساتوں کبائر یہ ہیں: (۱) شراب پینا (۲) جادو کرنا (۳) ناحق خون بہانا (۴) سود کھانا (۵) یتیم کا مال کھانا (۶) جہاد سے بھاگنا (۷) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں چیزوں میں سے کسی چیز کے جوڑے دے تو وہ جنت کے دروازے سے یہ کہتے ہوئے بلایا جائے گا کہ اللہ کے بندے! آ جا یہ دروازہ تیرے لیے بہتر ہے، تو جو شخص اہل صلاۃ میں سے ہو گا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو شخص مجاہدین میں سے ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو اہل صدقہ (و زکاۃ) میں سے ہوں گے تو وہ صدقہ (زکاۃ) کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو روزے رکھنے والوں میں سے ہو گا وہ باب الریان (ریان کے دروازہ) سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جو کوئی ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بلا لیا جائے اسے مزید کسی اور دروازے سے بلائے جانے کی ضرورت نہیں، لیکن اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں میں سے ہو گے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2240 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|