كتاب الزكاة کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 60. بَابُ: أَىُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ باب: کون سا صدقہ افضل ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا اس وقت کا صدقہ دینا افضل ہے جب تم تندرست ہو اور تمہیں دولت کی حرص ہو اور تم عیش و راحت کی آرزو رکھتے ہو اور محتاجی سے ڈرتے ہو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة11 (1419)، والوصایا7 (2748)، صحیح مسلم/الزکاة31 (1032)، سنن ابی داود/الوصایا3 (2865)، (تحفة الأشراف: 14900)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الوصایا 4 (2706)، مسند احمد 2/231، 250، 415، 447، ویأتی عند المؤلف في الوصایا1 (برقم3641) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی پشت سے ہو (یعنی مالداری باقی رکھتے ہوئے ہو)، اور اوپر والا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ (لینے والا ہاتھ) سے بہتر ہے، اور پہلے صدقہ انہیں دو جن کی تم کفالت کرتے ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة32 (1034)، (تحفة الأشراف: 3435)، صحیح البخاری/الزکاة18 (1427)، مسند احمد 3/402، 403، 434، سنن الدارمی/الزکاة22 (1693) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی پشت سے ہو ۱؎، اور ان سے شروع کرو جن کی کفالت تمہارے ذمہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 18 (1226)، (تحفة الأشراف: 1334)، مسند احمد (2/402) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی آدمی صدقہ دے کر محتاج نہ ہو جائے، بلکہ اس کی مالداری برقرار رہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنی بیوی پر خرچ کرے اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہو تو یہ اس کے لیے صدقہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان42 (55)، المغازی12 (4006)، النفقات1 (5351)، صحیح مسلم/الزکاة14 (1002)، سنن الترمذی/البر 42 (1965)، (تحفة الأشراف: 9996)، مسند احمد 4/120، 122، و5/273، سنن الدارمی/الاستئذان35 (2706) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کر دیا ۱؎، یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس شخص سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس اس غلام کے علاوہ بھی کوئی مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مجھ سے کون خرید رہا ہے؟“ تو نعیم بن عبداللہ عدوی نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان درہموں کو لے کر آئے اور انہیں اس کے حوالہ کر دیا، اور فرمایا: ”پہلے خود سے شروع کرو اسے اپنے اوپر صدقہ کرو اگر کچھ بچ رہے تو تمہاری بیوی کے لیے ہے، اور اگر تمہاری بیوی سے بھی بچ رہے تو تمہارے قرابت داروں کے لیے ہے، اور اگر تمہارے قرابت داروں سے بھی بچ رہے تو اس طرح اور اس طرح کرو، اور آپ اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کر رہے تھے“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة13 (997)، والأیمان 13 (997)، (تحفة الأشراف: 2922)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع59 (2141)، 110 (223)، والاستقراض 16 (2403)، والخصومات3 (2415)، والعتق 9 (2534)، وکفارات الأیمان7 (6716)، والإکراہ4 (6947)، والأحکام32 (7186) (مختصراً)، سنن ابی داود/العتق9 (3957)، سنن ابن ماجہ/العتق1 (2513) (مختصراً)، مسند احمد (3/305، 368، 369، 370، 371) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔ ۲؎: مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس پڑوس کے محتاجوں اور غریبوں کو دے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|