أبواب التيمم کتاب: تیمم کے احکام و مسائل 106. . بَابُ: تَحْتَ كُلِّ شَعَرَةٍ جَنَابَةٌ باب: ہر بال کے نیچے جنابت ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بال کے نیچے جنابت ہے، لہٰذا تم بالوں کو دھویا کرو، اور بدن کی جلد کو صاف کیا کرو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 98 (248)، سنن الترمذی/الطہا رة 78 (106)، (تحفة الأشراف: 14502) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں حارث بن وجیہ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزانہ پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک، اور امانت کی ادائیگی ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہیں“، میں نے پوچھا: امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل جنابت، کیونکہ ہر بال کے نیچے جنابت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3461، ومصباح الزجاجة: 233) (ضعیف)» (طلحہ بن نافع کا سماع ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 3801، و ضعیف ابی داود: 37)
وضاحت: ۱؎: (فواد عبدالباقی کے نسخہ میں «بينها» ہے) قال الشيخ الألباني: ضعيف
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے غسل جنابت کے وقت اپنے جسم سے ایک بال کی مقدار بھی چھوڑ دیا اور اسے نہ دھویا، تو اس کے ساتھ آگ سے ایسا اور ایسا کیا جائے گا“۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے بالوں سے دشمنی کر لی، وہ اپنے بال خوب کاٹ ڈالتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 98 (249)، (تحفة الأشراف: 10090)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/94، 101، 133)، سنن الدارمی/الطہارة 69 (778) (ضعیف)» (سند میں عطاء بن سائب ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ جب بال بڑے ہوں تو اکثر احتمال رہ جاتا ہے کہ شاید سارا سر نہ بھیگا ہو، کوئی مقام سوکھا رہ گیا ہو، علی رضی اللہ عنہ بالوں کو کترتے تھے، بال کاٹنا سارے سر کے منڈانے سے افضل ہے، مگر حج میں پورے بال منڈانا افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|