أبواب التيمم کتاب: تیمم کے احکام و مسائل 115. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ إِذَا كَانَتْ قَدْ عَرَفَتْ أَقْرَاءَهَا باب: مستحاضہ جس کے حیض کی مدت استحاضہ والے خون سے پہلے متعین ہو اس کے حکم کا بیان۔
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے (کثرت) خون کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رگ کا خون ہے، تم دیکھتی رہو جب مدت حیض آئے تو نماز نہ پڑھو، اور جب حیض گزر جائے تو غسل کرو، پھر دوسرے حیض کے آنے تک نماز پڑھتی رہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 108 (280)، 110 (286)، سنن النسائی/الطہارة 134 (201)، الحیض2 (350)، 4 (358)، 6 (362)، الطلاق 74 (3583)، (تحفة الأشراف: 18019)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 29 (104)، مسند احمد (6/420، 463)، سنن الدارمی/الطہارة 84 (801) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: استحاضہ ایک بیماری ہے جس میں عورت کا خون ہمیشہ جاری رہتا ہے، جس عورت کو یہ بیماری ہو اس کو مستحاضہ کہتے ہیں، اس کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ مستحاضہ: جس کے حیض کی مدت اس بیماری کے شروع ہونے سے پہلے متعین اور معلوم ہو، دوسرے وہ جس کو شروع ہی سے یہ بیماری ہو جائے، اور حیض کی مدت متعین نہ ہوئی ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مسلسل خون آتا رہتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ رگ کا خون ہے، حیض نہیں ہے جب حیض آئے تو نماز ترک کر دو، اور جب وہ ختم ہو جائے تو خون دھو کر (یعنی غسل کر کے) نماز پڑھو“۔ یہ وکیع کی حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «حدیث عبد اللہ بن الجراح قد أخرجہ: صحیح مسلم/الطہارة 14 (333)، سنن النسائی/الطہارة 138 (218)، (تحفة الأشراف: 16858)، وحدیث أبوبکر بن أبي شیبة أخرجہ: صحیح مسلم/الطہارة 14 (333)، سنن الترمذی/الطہارة 93 (125)، سنن النسائی/الطہارة 135 (212)، (تحفة الأشراف: 17259)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 64 (228)، الحیض 9 (306)، 2 (320)، 25 (325)، سنن ابی داود/الطہارة 109 (282) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے بہت لمبا استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سے متعلق بتانے اور فتوی پوچھنے کے لیے آئی، میں نے آپ کو اپنی بہن زینب رضی اللہ عنہا کے پاس پایا، میں نے عرض کیا: اے رسول اللہ! مجھے آپ سے ایک کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خاتون! تجھے کیا کام ہے؟“ میں نے کہا: مجھے ایک لمبے عرصہ تک خون آتا رہتا ہے جو نماز اور روزہ میں رکاوٹ کا سبب ہے، آپ اس سلسلے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں (اس کو شرمگاہ پہ رکھ لیا کرو) کیونکہ یہ خون جذب کر لے گی“، میں نے عرض کیا: خون اس سے بھی زیادہ ہے، پھر راوی نے شریک کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 110 (287)، سنن الترمذی/الطہارة 95 (128)، (تحفة الأشراف: 15821)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/382، 439، 440)، سنن الدارمی/الطہارة 84 (809) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 627) (حسن)» (سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی وجہ سے بعض کلام ہے کیونکہ ان کو مقارب الحدیث بلکہ منکر الحدیث کہا گیا ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، پاک نہیں رہتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ جن دنوں میں تمہیں حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑ دو“، ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی حدیث میں کہا: ”ہر مہینہ سے بقدر ایام حیض نماز چھوڑ دو، پھر غسل کرو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر نماز ادا کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 108 (274، 275)، سنن النسائی/الطہارة 134 (209)، الحیض 3 (354، 355)، (تحفة الأشراف: 18158)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 29 (105)، سنن الدارمی/الطہارة 84 (807) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگرچہ خون آیا کرے، کیونکہ وہ حیض کا خون نہیں ہے، اس حدیث سے اور حدث والوں کا بھی حکم نکلا جیسے کسی کو پیشاب کی بیماری ہو جائے یا ریاح (ہوا خارج ہونے) کی، وہ بھی نماز ترک نہ کرے بلکہ ہر نماز کے لئے وضو کرے، اور جب تک وقت باقی رہے ایک ہی وضو سے فرض اور نفل ادا کرے، گو حدث ہوتا رہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے جس سے میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں ہے، اپنے حیض کے دنوں میں نماز نہ پڑھو، پھر غسل کرو اور ہر نماز کے لیے الگ وضو کرو، (اور نماز پڑھو) خواہ خون چٹائی ہی پر کیوں نہ ٹپکے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 113 (298)، (تحفة الأشراف: 17372)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضو ء 64 (228)، سنن النسائی/الطہارة 138 (219)، موطا امام مالک/الطہارة 29 (104)، مسند احمد (6/42، 204، 262)، سنن الدارمی/الطہارة 84 (801) (صحیح)» (آخری ٹکڑا: «وإن قطر الدم على الحصير» کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ہر نماز کے لئے وضو کرنا زیادہ صحیح طریقہ ہے، اور اگر مستحاضہ دوسری نمازوں کو ملا کر پڑھنا چاہے، تو اس طرح کرے کہ ایک نماز میں دیر کرے، اس کو اخیر وقت پر ادا کرے، اور دوسری میں جلدی کرے، اس کو اول وقت پر ادا کرے، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک ہی وضو کر لے، اور کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ ہر نماز کے لئے غسل کرنا واجب ہے یا ہر دو نماز کے لئے یا ہر روز ایک بار بلکہ غسل اسی وقت کافی ہے جب عادت کے موافق حیض سے پاک ہونے کا وقت آئے یا خون کی رنگت کے لحاظ سے معلوم ہو جائے کہ اب حیض کا خون جا چکا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح إلا قوله لا وإن قطر
عدی بن ثابت کے دادا دینار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مستحاضہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے، پھر غسل کرے، اور ہر نماز کے لیے وضو کرے، اور روزے رکھے اور نماز پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 113 (297)، سنن الترمذی/الطہارة 94 (126)، (تحفة الأشراف: 3542)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطہارة 84 (820) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|