(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد الله بن عمر بن غانم، عن عبد الرحمن بن زياد يعني الافريقي، انه سمع زياد بن نعيم الحضرمي، انه سمع زياد بن الحارث الصدائي، قال:" لما كان اول اذان الصبح، امرني يعني النبي صلى الله عليه وسلم، فاذنت، فجعلت اقول: اقيم يا رسول الله، فجعل ينظر إلى ناحية المشرق إلى الفجر، فيقول: لا حتى إذا طلع الفجر، نزل فبرز ثم انصرف إلي وقد تلاحق اصحابه يعني فتوضا، فاراد بلال ان يقيم، فقال له نبي الله صلى الله عليه وسلم: إن اخا صداء هو اذن، ومن اذن فهو يقيم، قال: فاقمت". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ يَعْنِي الْأَفْرِيقِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ، قَالَ:" لَمَّا كَانَ أَوَّلُ أَذَانِ الصُّبْحِ، أَمَرَنِي يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذَّنْتُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أُقِيمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى نَاحِيَةِ الْمَشْرِقِ إِلَى الْفَجْرِ، فَيَقُولُ: لَا حَتَّى إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، نَزَلَ فَبَرَزَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيَّ وَقَدْ تَلَاحَقَ أَصْحَابُهُ يَعْنِي فَتَوَضَّأَ، فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ هُوَ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ، قَالَ: فَأَقَمْتُ".
زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب صبح کی پہلی اذان کا وقت ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اذان دینے کا) حکم دیا تو میں نے اذان کہی، پھر میں کہنے لگا: اللہ کے رسول! اقامت کہوں؟ تو آپ مشرق کی طرف فجر کی روشنی دیکھنے لگے اور فرما رہے تھے: ”ابھی نہیں (جب تک طلوع فجر نہ ہو جائے)“، یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور وضو کیا، پھر میری طرف واپس پلٹے اور صحابہ کرام اکھٹا ہو گئے، تو بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”صدائی نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی تکبیر کہے“۔ زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے تکبیر کہی۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 32 (199)، سنن ابن ماجہ/الأذان 3 (717)، (تحفة الأشراف: 3653)، مسند احمد (4/169) (ضعیف)» (اس کے راوی عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں)
Narrated Ziyad ibn al-Harith as-Sudai: When the adhan for the dawn prayer was initially introduced, the Prophet ﷺ commanded me to call the adhan and I did so. Then I began to ask: Should I utter iqamah, Messenger of Allah? But he began to look at the direction of the east, (waiting) for the break of dawn, and said: No. When the dawn broke, he came down and performed ablution and he then turned to me. In the meantime his Companions joined him. Then Bilal wanted to utter the iqamah, but the Prophet ﷺ said to him: The man of Suda' has called the adhan, and he who calls the adhan utters the iqamah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 514
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (199) ابن ماجه (717) الإ فريقي ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 32
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 514
514۔ اردو حاشیہ: اس باب کی مذکورہ تینوں روایتیں ضعیف ہیں۔ اس لئے ان سے کسی مسئلے کا اثبات نہیں ہوتا۔ لیکن بعض شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ موذن ہی اقامت کہے تو مناسب ہے تاہم اگر دوسرا اقامت کہے تو کوئی حرج نہیں۔ [عون المعبود۔ نيل الأوطار]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 514
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث717
´اذان کی سنتوں کا بیان۔` زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے مجھے اذان کا حکم دیا، میں نے اذان دی، (پھر جب نماز کا وقت ہوا) تو بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صداء کے بھائی (زیاد بن حارث صدائی) نے اذان دی ہے اور جو شخص اذان دے وہی اقامت کہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 717]
اردو حاشہ: فائدہ: یہ روایت سنداً ضعیف ہے اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ مؤذن ہی تکبیر کہے تاہم ہماری مساجد کی بالعموم جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ مؤذن ہی کو تکبیر کہنے کا پابند کیا جائےتاکہ انتشارکا دروازہ نہ کھلے۔ چونکہ دیکھنے میں یہ آیا ہےکہ نمازی اکثر شوق تکبیر میں ایک دوسرے سے الجھتے ہیں جو بعض دفعہ نزاع وجدال کی صورت اختیار کرلیتا ہے بناء بریں انتظامی مصلحت کے تحت مؤذن ہی کو تکبیر کا پابند بنا دینا نہایت مناسب بات ہے گو شرعاً یہ ضروری نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 717
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 199
´جو اذان دے وہی اقامت کہے۔` زیاد بن حارث صدائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فجر کی اذان دینے کا حکم دیا تو میں نے اذان دی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبیلہ صداء کے ایک شخص نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی اقامت کہے گا۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 199]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث ضعیف ہے، اس لیے اس کی بنا پر مساجد میں جھگڑے مناسب نہیں، اگر صحیح بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ مستحب کہہ سکتے ہیں، اور مستحب کے لیے مسلمانوں میں جھگڑے زیبا نہیں۔
نوٹ:
(سند میں عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 199