صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
9. باب التَّرْغِيبِ فِي الصَّدَقَةِ:
باب: صدقہ کی ترغیب دینا۔
حدیث نمبر: 2305
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ رُفَيْعٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ لَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: " مَنْ هَذَا؟ "، فَقُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " اجْلِسْ هَا هُنَا "، قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي: " اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لَا أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللَّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ، وَهُوَ يَقُولُ: " وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى "، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ؟ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، فَقَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ ".
عبدالعزیز بن رفیع نے زید بن وہب سے اور انھوں نے ابو زر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں ایک رات (گھرسے) باہر نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے جارہے ہیں، آپ کے ساتھ کوئی انسان نہیں تو میں نے خیال کیا کہ آپ اس بات کو ناپسند کررہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، چنانچہ میں چاند کے سائے میں چلنے لگا، آپ مڑے تو مجھے دیکھ لیا اور فرمایا: " یہ کون ہے؟"میں نے عرض کی: ابو زر رضی اللہ عنہ ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو زر (رضی اللہ عنہ) آجاؤ۔"کہا: میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلا تو آپ نے فرمایا: " بے شک زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم (مایہ) ہوں گے، سوائے ان کے جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا: اور ا نھوں نے اسے دائیں، بائیں اور آگے، پیچھے اڑا ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کئے۔"میں ایک گھڑی آپ کے ساتھ چلتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بیٹھ جاؤ۔"آپ نے مجھے ایک ہموار زمین میں بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: "یہیں بیٹھے رہنا یہاں تک کہ میں تمھارے پاس لوٹ آؤں۔"آپ پتھریلے میدان (حرے) میں چل پڑے حتیٰ کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے، آپ مجھ سے دور رکے رہے اور زیادہ دیرکردی، پھر میں نے آپ کی آواز سنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرمارہے تھے: "خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو۔"جب آپ تشریف لئے آئے تو میں صبر نہ کرسکا میں نے عرض کی: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ مجھے آپ پر نثار فرمائے!آپ سیاہ پتھروں کے میدان (حرہ) کے کنارے کس سے گفتگو فرمارہے تھے؟میں نے تو کسی کو نہیں سناجو آپ کو جواب دے رہا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا: اپنی امت کو بشارت دے دیجئے کہ جو کوئی اس حالت میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا۔میں نے کہا: اے جبرئیل علیہ السلام! چاہے اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟انھوں نےکہا: ہاں!فرمایا: میں نے پھر کہا: خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا: ہاں۔میں نے پھر (تیسری بار) پوچھا: خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا: ہاں، خواہ اس نے شراب (بھی) پی ہو۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک رات نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چلے جا رہے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی شخص نہیں ہے تو میں نے خیال کیا آپصلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کر رہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، تو میں چاند کے سایہ میں چلنے لگا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مڑ کر دیکھ لیا۔ اور فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا ابو ذر ہوں، اللہ مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابو ذر! آ جاؤ) تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دیر چلا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم مرتبہ ہوں گے مگر جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا: اور انھوں نے اسے دائیں، بائیں اور آگے، پیچھے پھونک ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کیے“ میں آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھو“ تو آپ نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا۔ ”یہاں بیٹھو حتی کہ میں تیرے پاس لوٹ آؤں آپصلی اللہ علیہ وسلم پتھریلی زمین میں چلے حتی کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے اور وہاں ٹھہرے رہے اور کافی دیر تک ٹھہرے رہے پھر میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرما رہے تھے ”خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو“ جب آپصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو میں صبر نہ کر سکا اور میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم پر نثارفرمائے! آپصلی اللہ علیہ وسلم سیاہ پتھروں کے کنارے کس سے گفتگو فرما رہے تھے؟ میں نے کسی کو کچھ جواب دیتے نہیں سنا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا اپنی امت کو بشارت دیجیے جو اس حالت میں فوت ہو گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔ وہ جنت میں داخل ہو گا تو میں نے کہا: اے جبرائیل علیہ السلام اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کا مرتکب ہوا ہو، اس نے کہا: جی ہاں! میں نے پھر پوچھا خواہ وہ چور ہو یا زانی؟ اس نے کہا: ہاں میں نے پھر تیسری بار پوچھا: خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟ اس نے کہا: ہاں اور اگرچہ وہ شرابی ہی کیوں نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2305 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2305
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مالداروں کو اپنا وافرمال ہر قسم کے نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے اگر وہ قیامت کے دن بلند مراتب پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔
مگر اگر وہ اپنا مال وجوہ خیر اور اسلام اور اہل اسلام کی بہتری اور مفادات کے حصول کے لیے کھلے دل سے ہر وقت اور ہر موقع پر اپنی قدرت کے مطابق خرچ نہیں کریں گے۔
تو وہ اعلیٰ درجات سے محروم رہیں گے۔
(2)
توحید کا اصل خاصہ اور خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اگر انسان اس کا صحیح حق ادا کرے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا لیکن اگر اس کے حقوق کی ادائیگی میں کمی اور کوتاہی کی تو اس خاصہ اور امتیاز کے ظہور میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور اس رکاوٹ کے ازالہ تک دوزخ میں رہنا پڑے گا اور آخر کار دوزخ سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
(3)
چوری اور زنا انتہائی قبیح جرائم ہیں جو دوسروں کے مال اور عزت و ناموس پر ڈاکہ زنی ہیں اس لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے تعجب کے انداز میں پوچھا:
چوری اور زنا کا مرتکب بھی جنت میں چلا جائے گا تو جبریل نے جواب دیا۔
ایسا انسان بھی جنت سے محروم نہیں رہے گا۔
بلکہ ان سے بڑھ کر جرم شراب نوشی کا مرتکب بھی موحد ہونے کی صورت میں جنت سے محروم نہیں رہے گا۔
حالانکہ شرابی ہر قسم کی شرم و حیا سے عاری ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2305
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5226
´آدمی کسی سے کہے ”اللہ مجھے آپ پر فدا کرے“ تو کیسا ہے؟`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو پکارا: اے ابوذر! میں نے کہا: میں حاضر ہوں حکم فرمائیے اللہ کے رسول! میں آپ پر فدا ہوں۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5226]
فوائد ومسائل:
یہ کلمہ میں تجھ پر واری قربان یا فدا معمولی کلمہ نہیں ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے وہیں استعمال ہونا چاہیے جہاں دنیا اور آخرت کی سعادت ہو۔
مثلا صالح ماں، باپ یا راسخ فی العلم ربانی علماء جو دین کے صحیح معنی میں معلم اور داعی ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5226
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4130
´مالداروں کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیادہ مال والے لوگ قیامت کے دن سب سے کمتر درجہ والے ہوں گے، مگر جو مال کو اس طرح اور اس طرح کرے اور اسے حلال طریقے سے کمائے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4130]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
سخاوت سے اس شخص کو فائدہ ہوسکتا ہے جس کی کمائی حلال ہولہٰذا حرام کمائی سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4130
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6443
6443. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ہی جا رہے ہیں، اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھ کسی کے چلنے کو پسند نہیں کرتے ہوں گے، اس لیے میں چاند کے سائے میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ نے میری طرف توجہ فرمائی تو مجھے دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: ابوذر ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! آپ نے فرمایا: ”ابوذر! آگے آجاؤ۔“ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ جو لوگ دنیا میں زیادہ مال دار ہیں وہی قیامت کے دن نادار ہوں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دائیں، بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرے اور اسے اچھے کاموں میں صرف کرے۔“ ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، آپ نے فرمایا: ”یہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6443]
حدیث حاشیہ:
زید بن وہب کی سند کے بیان کرنے سے امام بخاری نے عبد العزیز کا سماع زید بن وہب سے ثابت کر دیا اور تدلیس کے شبہ کو رفع کر دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6443
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6443
6443. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ہی جا رہے ہیں، اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھ کسی کے چلنے کو پسند نہیں کرتے ہوں گے، اس لیے میں چاند کے سائے میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ نے میری طرف توجہ فرمائی تو مجھے دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے کہا: ابوذر ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! آپ نے فرمایا: ”ابوذر! آگے آجاؤ۔“ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ جو لوگ دنیا میں زیادہ مال دار ہیں وہی قیامت کے دن نادار ہوں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دائیں، بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرے اور اسے اچھے کاموں میں صرف کرے۔“ ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، آپ نے فرمایا: ”یہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6443]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ کیا تھا کہ آخرت کی دشوار گزار گھاٹیوں کو وہی لوگ عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے اور جو لوگ دنیا میں اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے، اس لیے اکثر صحابہ فقر و فاقے کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
“ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں آدم کا بیٹا ناپسند کرتا ہے:
انسان موت کو ناپسند کرتا ہے، حالانکہ موت اہل ایمان کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور وہ قلت مال کو ناپسند کرتا ہے جبکہ قلت مال کا حساب کم ہے۔
“ (مسند أحمد: 427/5) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں زیادہ مال دار لوگ قیامت کے دن اسی قدر زیادہ نادار ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنے مال آخرت بنانے کے بجائے اسے اپنی سج دھج اور ٹھاٹھ باٹھ میں خرچ کر دیا، اس لیے قیامت کے دن وہ درج ذیل آیت کا مصداق ہوں گے:
”تم نے اپنی چیزیں دنیا کی زندگانی میں حاصل کر لیں اور تم نے ان سے فائدہ اٹھا لیا، اس لیے آج تمہیں ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
“ (الأحقاف: 20)
یہی وجہ ہے کہ عموماً اللہ تعالیٰ کے نافرمان دنیاوی اعتبار سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6443