كِتَابُ: الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل 262. (29) بَابُ اسْتِحْبَابِ التَّغْلِيسِ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ. اندھیرے میں نماز فجر ادا کرنا مستحب ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مؤمن عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صُبح کی نماز ادا کرتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی واپس نکلتی تھیں کہ اُنہیں پہچانا نہیں جاتا تھا۔ احمد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر اُنہوں نے اندھیرے کا ذکر کیا (کہ اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں)۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تو ہم نے اُس کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کی۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حضرت ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ منبر پر تشریف فرما تھے تو اُنہوں نے نماز کچھ مؤخر کردی۔ تو حضرت عروہ بن زبیر نے فرمایا کہ بیشک جبرائیل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے وقت کے متعلق بیان فرمایا ہے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خوب سمجھ لو تم کیا کہہ رہے ہو۔ تو حضرت عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے تو اُنہوں نے مجھے نماز کے وقت کی خبر دی، تو میں نے ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر میں نے اُس کے ساتھ نماز ادا کی، پھر میں نے اُن کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے اُس کے ساتھ نماز ادا کی“ تو اُنہوں نے پانچ نمازیں ا پنی انگیوں پر شمار کیں۔ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز سودج ڈھلنے پر ادا کی اور بسا ادقات اسے مؤخر کیا جبکہ گرمی شدید ہوجاتی۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عصر ادا کی جبکہ سورج بلند اور سفید تھا، اس سے پہلے کہ وہ زرد ہوتا۔ تو ایک شخص نماز سے فارغ ہوکر غروب آفتاب سے پہلے ذوالحلیفہ آجاتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب، غروب آفتاب کے وقت ادا کرتے، اور عشاء کی نماز اس وقت پڑھتے جب اُفق سیاہ ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات لوگوں کے جمع ہونے تک اُسے مؤخر کردیتے۔ ایک مرتبہ صبح کی نماز کو اندھیرے میں لوگوں کے جمع ہونے تک اُسے مؤخر کردیتے۔ ایک مرتبہ صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کی، پھر دوسری مرتبہ اُسے روشنی میں پڑھا، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اندھیرے میں ہی ہوتی تھی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی روشنی میں نماز ادا نہیں کی۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روایت میں یہ اضافہ صرف اسامہ بن زید راوی نے بیان کیا ہے۔ اس پوری حدیث میں دلیل ہے کہ شفق سے مراد سفیدی ہے سرخی نہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز اس وقت ادا کرتے جب اُفق سیاہ ہو جاتا۔ اور اُفق سیاہ اُس وقت ہوتا ہے جب سُرخی کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہونے والی سفیدی غائب ہوجائے۔ کیونکہ سُرخی جب ختم ہوتی ہے تو سفیدی اُس کے بعد باقی رہتی ہے پھر سفیدی غائب ہوتی ہے تو اُفق سیاہ ہوتا ہے۔ اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دن کی سفیدی ختم ہونے پر عشاء کی اذان کہی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے وقت کے متعلق پوچھا۔ پھر اُنہوں نے دو دن اور دو راتوں میں اوقاتِ نماز کے متعلق مکمّل حدیث بیان کی۔ اور پہلی رات میں فرمایا کہ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دن کی سفیدی ختم ہونے پر عشا کی اذان کہی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے نماز کی اقامت کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اور دوسری رات کے متعلق فرمایا کہ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دن کی سفیدی ختم ہونے پر عشاء کی اذان کہی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے مؤخرکردیا توہم سوگئے، پھرہم کئی بار سوئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو فرمایا: ”بیشک لوگ نماز پڑھ کرسوچکے ہیں اور بیشک تم اس وقت سے مسلسل نماز ہی میں ہو جب سے تم اس کا انتظار کر رہے ہو۔“ پھر پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز ظہر کا وقت نماز عصر تک رہتا ہے۔ اور نماز عصر کا وقت سورج زرد ہونے تک باقی رہتا ہے، اور نماز مغرب کا وقت شفق کی سرخی ختم ہونے تک رہتا ہے۔ اور عشاء کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔ اور نماز صبح کا وقت طلوع آفتاب تک رہتا ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اس حدیث میں یہ الفاظ «حمرة الشفق» صحیح ثابت ہوں تو اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ شفق سے مراد سُرخی ہے (سفیدی نہیں) مگر ان الفاظ کو صرف محمد بن یزید نے بیان کیا ہے کہ اگر یہ اس سے یاد رکھے گئے ہوں۔ جبکہ امام شعبہ کے شاگردوں نے اس حدیث میں محمد بن یزید کے قول، (شفق کی تیزی اور اس کا پھیلاؤ کو) روایت کیا ہے۔ امام صاحب نے بندار اور ابوموسیٰ کی سند سے روایت بیان کی ہے۔ دونوں نے اس روایت میں کہا کہ ”اور مغرب کا وقت شفق کی تیزی ختم ہونے تک ہے“ اُنہوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
امام صاحب نے محمد بن لبید کی سند سے روایت بیان کی ہے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ایک بار اسے مرفوع بیان کیا ہے۔ جبکہ بندار نے مذکورہ بالا حدیث ہی کی طرح بیان کیا ہے۔ اس روایت کو سعید بن ابی عروبہ نے بھی بیان کیا ہے مگر اُنہوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا اور نہ سرخسی کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ابن ابی عدی نے اسے شعبہ سے موقوف روایت کیا ہے، انہوں نے شعبہ سے سرخی کے متعلق بیان نہیں کیا۔ امام صاحب قتادہ کی ایک اور سند بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لہٰذا یہ حدیث موقوف ہے اس میں سرخی کا ذکر نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دیکھا جانا چاہیے (غور و فکر کرنا چاہئے) کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ شفق سرخی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ عشاء کا اوّل وقت شفق غائب ہونے پر ہے، تو عشاء کی نماز افق کی سفیدی ختم ہونے تک ادا نہ کی جائے کیونکہ جو چیز معدوم ہو وہ معدوم ہی ہے حتیٰ کہ اس کا ہونا یقینی ہو جائے۔ لہٰذا جب تک یقیناً معلوم نہ ہو جائے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اُس وقت تک نماز واجب نہیں ہوتی۔ فرض کی ادائیگی اُس کے واجب ہونے کے یقین تک جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ جب سرخی غائب ہو جائے اور سفیدی باقی ہو تو عشاﺀ کے وقت کا ہونا یقینی نہیں بلکہ مشکوک ہے۔ کیونکہ علماﺀ نے شفق کے متعلق اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرخی ہے جبکہ بعض کے نزدیک سفیدی ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشاندہی سے ثابت نہیں کہ شفق سے مراد سرخی ہے۔ اور جووقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ اس پر مسلمان متفق ہیں تو اس وقت میں نماز ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ مگر یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول یا مسلمان کسی وقت میں واجب کر دیں۔ (تو ادا کی جاسکتی ہے) چنانچہ جب سفیدی افق میں موجود ہو اور علماء نے (اس وقت) نماز عشاء کے واجب ہونے میں اختلاف کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت میں نماز واجب ہونے پر کوئی دلیل ثابت نہیں ہے (تو اس وقت نماز ادا نہیں کرنی چاہیے) اس لیے جب سفیدی ختم ہو جائے اور سیاہی چھا جائے تو علما نے اُس وقت نماز کے واجب ہونے پو اتفاق کیا ہے لہٰذا اس وقت نماز عشاء کو ادا کرنا جائز ہو گا۔ واللہ اعلم۔ بشرطیکہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی حدیث میں موجود الفاظ صحیح ثابت ہوں۔
تخریج الحدیث:
|