كِتَابُ: الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل 234. (1) بَابُ بَدْءِ فَرْضِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ نماز پنجگانہ کی فرضیت کی ابتدا کا بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک شخص سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اثنا میں کہ میں بیت اللہ کے پاس سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت میں تھا جب میں نے ایک کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا کہ تین میں سے درمیان والے کو لے لو۔ چنانچہ میرے پاس سونے کا ایک تھال لایا گیا جس میں آب زمزم تھا-“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا سینہ یہاں سے یہاں تک کھولا گیا۔“ قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد کیا ہے؟ کہا کہ مراد یہ ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ پیٹ کے نچلے حصّے تک چیرا گیا تو میرا دل نکالا گیا، اُسے آب زمزم سے دھویا گیا پھر اُسے اُس کی جگہ لوٹا دیا گیا۔ پھر اُسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ پھر میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک سفید جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتاہے مجھے اُس پرسوارکیا گیا، پھرمیں چل پڑاحتیٰ کہ ہم آسمانِ دنیا پر پہنچ گئے۔ جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کُھلوایا تو کہا گیا کہ کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیا اُنہیں بلایا گیا ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا (فرشتوں نے) کہا کہ خوش آمدید، آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا تو میں نے پوچھا کہ اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے والد بزرگوار آدم علیہ السلام ہیں۔ میں نے اُنہیں سلام کیا تو اُنہوں نے فرمایا، نیک بیٹے اور نیک بخت نبی کو خوش آمدید، فرمایا کہ پھر ہم چلتے رہے حتیٰ کہ دوسرے آسمان پر آگئے۔ جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، کہا گیا کون ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جواب دیا کہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیا اُنہیں بلایا گیا ہے؟ کہا کہ ہاں۔ تو ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا (فرشتوں نے) کہا کہ خوش آمدید، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا مبارک ہو۔ پھر میں سیدنا یحییٰ اور عیسی علیہ السلام کے پاس گیا تو میں نے کہا کہ ”اے جبرائیل یہ دو کون حضرات ہیں؟“ انہوں نے جواب دیا کہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہیں۔ سعید کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اُنہوں نے اپنی روایت میں کہا تھا کہ ”دو خالہ زاد بھائی“ تو میں نے اُن دونوں کو سلام کیا۔“ اور انہوں نے فرمایا، نیک بھائی اور برگزیدہ نبی کو خوش آمدید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ہم چلتے ہوئے تیسرے آسمان پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا تو کہا گیا کہ کون ہے، اُنہوں نے جواب دیا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ تو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا اور فرشتوں نے کہا، خوش آمدید، خوش آمدید۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے پاس آیا تو میں نے انہیں سلام کیا۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ نیک نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید۔ پھر ہم چوتھے آسمان کی طرف چل پڑے وہاں بھی جبرائیل اور ربانوں کی سابقہ کلام کی طرح بات چیت ہوئی۔ پھر میں سیدنا ادریس علیہ السلام کے پاس آیا تو میں نے اُنہیں سلام کیا، اُنہوں نے فرمایا کہ صالح بھائی اور برگزیدہ نبی کو خوش آمدید پھر ہم پانچویں آسمان پر پہنچے تو میں سیدنا ہارون علیہ السلام کے پاس آیا اور اُنہیں سلام کیا۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ نیک بخت بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید۔ پھر ہم چھٹے آسمان کی طرف چل پڑے۔ پھرمیں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ ان سب پراللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔ میں نے اُنہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید۔ پھرجب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے اور فرمایا، پھر میں سدرۃ المنتہی کی طرف لوٹ آیا۔“ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ”اس (بیری) کے بیر ہجر بستی کے مٹکوں جیسے ہیں۔ اور اس کے پتّے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں۔“ اور اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار نہریں سدرہ کی جڑ سے نکلتی ہوئی دیکھیں۔ دو نہریں ظاہری ہیں اور دو باطنی ہیں۔ تو میں نے پوچھا کہ اے جبرائیل، یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ دو باطنی (ڈھانپی ہوئی) نہریں تو جنّت میں گئی ہیں۔ اور یہ دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔ پھر ہمارے لئے بیت المعمور بلند کر دیا گیا۔ میں نے کہا کہ جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ ہر روز ستّر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں۔ جب وہ اس سے نکل جاتے ہیں تو پھر دوبارہ کبھی اس میں نہیں لوٹتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میرے پاس دو برتن لائے گئے ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ دونوں برتن مجھے پیش کیے گئے تو میں نے دودھ کو اختیار کیا۔ تو مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے ٹھیک انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کوخیر و بھلائی والی چیز اختیار کرنے کی راہنمائی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت بھی آپ کی پیروی کرے گی۔ پھرمجھ پرہرروز پچاس نمازیں فرض کی گئیں، میں اُنہیں لیکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو اُنہوں نے پوچھا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کس چیز کا حُکم دیا گیا؟ میں نے کہا کہ ہر روز پچاس نمازوں کا حُکم دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بیشک آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اُمّت اس کی طاقت نہیں رکھتی، میں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور اُنہیں بڑی اچھی طرح پرکھا ہے (اُنکی اصلاح کرنے کی بھر پور کو شش کی ہے) آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اپنی اُمت کے لیے تخفیف کا مطالبہ کریں۔ میں واپس گیا (اور کمی کا مطالبہ کیا) تو مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں پھر میں مسلسل اپنے رب اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان چکّر لگاتا رہا، اللہ تعالیٰ مجھے کمی سے نوازتا رہا اور موسیٰ علیہ السلام مجھے (مزید) کمی کا مطالبہ کرنے کا کہتے رہے۔ حتیٰ کہ میں ہر روز پانچ نمازوں کی ادائیگی کا حُکم لیکر لوٹ آیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اُمّت اس کی طاقت نہیں رکھتی، میں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور بنی اسرائیل کا بڑا سخت امتحان لیا ہے - آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور اپنی اُمّت کے لئے کمی کا سوال کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے رب کے پاس بہت بار جاچکا ہوں حتیٰ کہ مجھے شرم آنے لگی ہے۔ لہٰذا اب میں راضی ہوں اور (اسی حکم کو) تسلیم کرتا ہوں۔“ تو مجھے آواز دی گئی بیشک میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا ہے اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ نے اُنہیں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اسراء والی رات کے متعلق بیان فرمایا پھر مکمل حدیث ذکر کی۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے جارود رحمہ اللہ سے پوچھا جبکہ وہ میرے پہلو میں تشریف فرما تھے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا مراد ہے (کہ میرا سینہ یہاں سے یہاں تک کھولا گیا) اُنہوں نے فرمایا کہ (اس کا مطلب ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسلی کی ہڈی سے لیکر (زیرِ ناف) بالوں تک کھولا گیا۔ اور میں نے اُنہیں یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے بالوں سے لیکر (زیرِ ناف) بالوں تک کھولا گیا۔ پھر محمد بن یحییٰ نے مکمل حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سعید کی روایت میں قتادہ رحمہ اللہ کا یہ کہنا ہے: «فقلت له» ”میں نے ان سے کہا“ اس سے مراد یہ نہیں کہ اُنہوں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا تھا بلکہ اُن کی اس سے مراد یہ ہے کہ اُنہوں نے جارود سے کہا تھا۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
|