صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
كِتَابُ‏:‏ الصَّلَاةِ
نماز کے احکام و مسائل
246. ‏(‏13‏)‏ بَابُ ذِكْرِ مَوَاقِيتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ‏.‏
نماز پنجگانہ کے اوقات کا بیان
حدیث نمبر: 323
Save to word اعراب
نا يعقوب بن إبراهيم، والحسن بن محمد، وعلي بن الحسين بن إبراهيم بن الحسين، واحمد بن سنان الواسطي، وموسى بن خاقان البغدادي قالوا: حدثنا إسحاق، وهو ابن يوسف الازرق، وهذا حديث الدورقي، نا سفيان الثوري، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فساله عن وقت الصلوات، فقال: صل معنا، فلما زالت الشمس صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر وقال: وصلى العصر والشمس مرتفعة نقية، وصلى المغرب حين غربت الشمس، وصلى العشاء حين غاب الشفق، وصلى الفجر بغلس، فلما كان من الغد امر بلالا فاذن الظهر فابرد بها، فانعم ان يبرد بها، وامره فاقام العصر والشمس حية، اخر فوق الذي كان، وامره فاقام المغرب قبل ان يغيب الشفق، وامره فاقام العشاء بعدما ذهب ثلث الليل، وامره فاقام الفجر فاسفر بها، ثم قال: «اين السائل عن وقت الصلاة؟» قال: انا يا رسول الله قال: «وقت صلاتكم بين ما رايتم» قال ابو بكر: لم اجد في كتابي عن الزعفراني المغرب في اليوم الثانينا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَالْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحُسَيْنِ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، وَمُوسَى بْنُ خَاقَانَ الْبَغْدَادِيُّ قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، وَهُوَ ابْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، وَهَذَا حَدِيثُ الدَّوْرَقِيِّ، نا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ، فَقَالَ: صَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَقَالَ: وَصَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ نَقِيَّةٌ، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْفَجْرَ بِغَلَسٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ الظُّهْرَ فَأَبْرَدَ بِهَا، فَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ بِهَا، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، أَخَّرَ فَوْقَ الَّذِي كَانَ، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ بَعْدَمَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، وَأَمَرَهُ فَأَقَامَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ قَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟» قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بَيْنَ مَا رَأَيْتُمْ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ أَجِدْ فِي كِتَابِي عَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ الْمَغْرِبَ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي
حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا، ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے وقت کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے ساتھ نماز پڑھو (تمہیں وقت معلوم ہو جائے گا) پھر جب سورج ڈھل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی، اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ادا کی جبکہ سورج بلند اور صاف و روشن تھا، اور سورج غروب ہونے پر نماز مغرب ادا کی، اور نماز عشاء شفق غائب ہونے پر ادا کی، اور نماز فجر اندھیرے میں ادا کی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حٗکم دیا تو اُنہوں نے ظہر کی اذان دی اور اُسے ٹھنڈا کیا تو خوب ٹھنڈا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا تو اُنہوں نے نمازِ عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج زندہ (خوب روشن) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کل سے زیادہ تاخیر سے ادا کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے سرخی غائب ہو نے سے پہلے نماز مغرب کی اقامت کہی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں حُکم دیا تو اُنہوں نے تہائی رات گزر نے پر عشاء کی نما ز قائم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم سے اُنہوں نے نماز فجر کو روشنی میں قائم کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کے وقت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اُس نے عرض کی کہ میں موجود ہوں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری نمازوں کے اوقات اس کے درمیان ہیں جو تم نے (دو دن میں) دیکھا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں زعفرانی سے یہ الفاظ نہیں پائے مغرب دوسرے دن میں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 324
Save to word اعراب
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اوقات نماز کے متعلق روایت بیان کرتے ہیں۔ بندار نے ہمیں اس سے زیادہ روایت بیان نہیں کی۔ بندار کہتے ہیں کہ میں اسے ابوداؤد سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا کہ اس روایت کے راوی پر نماز جنازہ پڑی جانی چائیے۔ بندار کہتے ہیں کہ تو میں نے اس روایت کو اپنی کتاب سے مٹا دیا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوداؤد پر نماز جنازہ پڑھی جانی چاہیے کیونکہ اُنہوں نے غلطی کے ہے۔ اور بندار کویہ حدیث اپنی کتاب سے مٹانے کی وجہ سے دس کوڑے مارے جانے چاہیے۔ یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ ثوری نے بھی علقمہ سے روایت کیا ہے ابوداؤد نے غلطی کھائی ہے اور بندار نے اس کو تبدیل کر دیا۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے ثوری نے بھی علقمہ سے روایت کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ حرمی بن عمارہ کی سند سے مکمّل حد یث بیان کر تے ہیں۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرما تے ہیں کہ یہ حد یث عراقیوں کے اس دعویٰ کی تردید کرتی ہے کہ حا کم کے پاس کوئی شخص یہ اقرار کرلے کہ فلاں شخص کے اس پر ایک سے دس درہم تک واجب ہیں تو اُس پر آٹھ درہم واجب ہوں گے۔ اس طرح اُنہوں نے اس محال بات کو طویل باب کی شکل دیدی ہے۔ اور اس غلط حُکم پر بیشمار فرعی مسائل کی بنیاد رکھی ہے۔ اُن کے اس قول سے یہ واجب ہوتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دن اور دو راتیں پانچوں نمازیں اُن کے اوقات کے بغیر پڑھائیں۔ کیونکہ اُن کے قول کا لازم یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات پہلے اور دوسرے وقت کے درمیان ہیں اور پہلا اور دوسرا وقت نماز کے وقت سے خارج ہے جیسا کے ان کا دعویٰ ہے کہ حا کم کے سا منے، ایک اور دس درہم، اقرا رکرنے والے کے اقرارسے خارج ہیں اور آٹھ درہم، ایک اور دس در ہم کے درمیان ہے۔ میں اس قسم کا طو یل مسئلہ املاء کروا چکا ہوں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.