كِتَابُ: الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل 258. (25) بَابُ اسْتِحْبَابِ تَأْخِيرِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِذَا لَمْ يَخَفِ الْمَرْءُ الرُّقَادَ قَبْلَهَا، جب کسی آدمی کو نمازِ عشاء سے پہلے سو جانے کا خدشہ نہ ہو تو نمازِ عشاء کو مؤخر کرنا مستحب ہے
نیز امام کو نماز عشاء مؤخر کرنے کی صورت میں کمزور شخص کی کمزوری اور بیمار کی بیماری کا ڈر نہ ہو کہ ان کی نماز با جماعت فوت ہو جائے گی یا نماز مؤخر کرنے سے ان کے لیے جماعت میں حاضر ہونا مشکل ہو جائے گا تو نماز عشاء مؤخر کرنا مستحب ہے۔
تخریج الحدیث:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز عشاء مؤخر کردی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، نماز (پڑھا دیجئے) عورتیں اور بچّے سو گئے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں جانب سے پانی جھاڑ رہے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ”اگر مجھے خدشہ نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمّت کو مشقّت میں ڈال دوں گا تو میں اُنہیں (یہ نماز) اسی وقت پڑھنے کا حُکم دیتا۔“ (ابن جریج اور عمر) دو میں سے کسی ایک نے یہ الفاظ روایت کئے کہ ”یہی وقت ہے اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمّت کو مشکل و مشقت میں ڈال دوں گا۔“ یہ عبدالجبار کی حدیث کے الفاظ ہیں جب اُنہوں نے ابن جریح اور عمر بن دینار سے روایت کو جمع کر کے بیان کیا۔ اور جب ابن جریح کی روایت کو منفرد بیان کیا تو کہا کہ ”یہی وقت ہے کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمُت کو مشقْت میں ڈال دوں گا۔“ احمد بن عبدہ نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ”اگر مُجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ میں مؤمنوں کومُشقّت میں ڈال دوں گا تو میں اُنہیں یہ نماز اسی وقت ادا کرنے کا حُکم دیتا۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء کو مؤخر کر دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے با آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ (حضور) عورتیں اور بچّے سو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: ”اہل زمین میں سے تمہارے سوا کوئی بھی اس نماز کا انتظار نہیں کررہا۔“ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُن دنوں صرف اہل مدینہ ہی نماز پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک رات نماز عشاء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تہائی رات گزر جانے کے بعد تشریف لائے۔ اور ہمیں معلوم نہیں کہ کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں یا کسی اور کام میں مشغول کر دیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تم اس نماز کا انتظار کر رہے ہو کہ تمہارے سوا کوئی مذہب والے اس کا انتظار نہیں کررہے۔ اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری اُمّت پر گراں ہوگا تو میں اُنہیں (یہ نماز) اسی وقت پڑھاتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذّن کو حُکم دیا تو اُس نے نماز کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز عشاء کے لئے تقریبا آدھی رات تک انتظار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی اور فرمایا: ”اپنی نشستوں کو سنبھالو۔ بیشک لوگ سو چُکے ہیں۔ بیشک تم جب سے نماز کا انتظار کر رہے ہو، اُس وقت سے مسلسل نماز ہی میں ہو۔ اور اگر مجھے کمزور شخص کی کمزوری، بیمار شخص کی بیماری اور حاجت مند کی حاجت و ضرورت کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کوآدھی رات تک مؤخر کر دیتا۔“ یہ بندار کی حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
|