عن ابي بكرة رضي الله عنه قال: خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر قال: «إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والارض السنة اثنا عشر شهرا منها اربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان» وقال: «اي شهر هذا؟» قلنا: الله ورسوله اعلم فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه فقال: «اليس ذا الحجة؟» قلنا: بلى. قال: «اي بلد هذا؟» قلنا: الله ورسوله اعلم فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه قال: «اليس البلدة؟» قلنا: بلى قال «فاي يوم هذا؟» قلنا: الله ورسوله اعلم فسكت حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه. قال: «اليس يوم النحر؟» قلنا: بلى. قال: «فإن دماءكم واموالكم واعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقون ربكم فيسالكم عن اعمالكم الا فلا ترجعوا بعدي ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض الا هل بلغت؟» قالوا: نعم. قال: «اللهم اشهد فليبلغ الشاهد الغائب فرب مبلغ اوعى من سامع» عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَ: «إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ» وَقَالَ: «أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟» قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ فَقَالَ: «أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟» قُلْنَا: بَلَى. قَالَ: «أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟» قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ قَالَ: «أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟» قُلْنَا: بَلَى قَالَ «فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟» قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ. قَالَ: «أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟» قُلْنَا: بَلَى. قَالَ: «فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ أَلَا فَلَا تَرْجِعُوا بِعْدِي ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟» قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: «اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ»
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطاب فرمایا تو فرمایا: ”زمانہ (سال) گھوم گھما کر اسی صورت پر آ گیا ہے جیسے اس دن تھا، جس روز اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان تخلیق فرمائے تھے، سال بارہ ماہ کا ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم تو متواتر ہیں اور رجب مضر جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے خاموشی اختیار کر لی حتی کہ ہم نے خیال کیا آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟“ ہم نے عرض کیا، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے؟“ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ خاموش رہے حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ بلدہ (یعنی مکہ) نہیں؟“ ہم نے عرض کیا، جی ہاں، ایسے ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا دن ہے؟”ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟“ ہم نے عرض کیا، جی ہاں، ایسے ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر اس ماہ میں، اس شہر میں اور اس دن کی حرمت کی طرح تم پر حرام ہیں، تم عنقریب اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو، وہ تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے سوال کرے گا، سن لو! تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو، سن لو! کیا میں نے تم تک (دین) پہنچا دیا؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! گواہ رہنا، جو یہاں موجود ہیں وہ غیر موجود تک پہنچا دیں، بسا اوقات جس کو بات پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1741) و مسلم (29. 1679/31)»