وعن ابي جري جابر بن سليم قال: اتيت المدينة فرايت رجلا يصدر الناس عن رايه لا يقول شيئا إلا صدروا عنه قلت من هذا قالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: عليك السلام يا رسول الله مرتين قال: «لا تقل عليك السلام فإن عليك السلام تحية الميت قل السلام عليك» قلت: انت رسول الله؟ قال: «انا رسول الله الذي إذا اصابك ضر فدعوته كشفه عنك وإن اصابك عام سنة فدعوته انبتها لك وإذا كنت بارض قفراء او فلاة فضلت راحلتك فدعوته ردها عليك» . قلت: اعهد إلي. قال: «لا تسبن احدا» قال فما سببت بعده حرا ولا عبدا ولا بعيرا ولا شاة. قال: «ولا تحقرن شيئا من المعروف وان تكلم اخاك وانت منبسط إليه وجهك إن ذلك من المعروف وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن ابيت فإلى الكعبين وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة وإن امرؤ شتمك وعيرك بما يعلم فيك فلا تعيره بما تعلم فيه فإنما وبال ذلك عليه» . رواه ابو داود وروى الترمذي منه حديث السلام. وفي رواية: «فيكون لك اجر ذلك ووباله عليه» وَعَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَرَأَيْتُ رَجُلًا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ لَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ قَالَ: «لَا تقل عَلَيْك السَّلَام فَإِن عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ قُلِ السَّلَامُ عَلَيْكَ» قلت: أَنْت رَسُول الله؟ قَالَ: «أَنا رَسُول الله الَّذِي إِذا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَهَا لَكَ وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْض قفراء أَوْ فَلَاةٍ فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ رَدَّهَا عَلَيْكَ» . قُلْتُ: اعْهَدْ إِلَيَّ. قَالَ: «لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا» قَالَ فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً. قَالَ: «وَلَا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ وَارْفَعْ إِزَاَرَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ فَلَا تعيره بِمَا تعلم فِيهِ فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ مِنْهُ حَدِيثَ السَّلَامِ. وَفِي رِوَايَةٍ: «فَيَكُونَ لَكَ أَجْرُ ذَلِكَ وَوَبَالُهُ عَلَيْهِ»
ابوجری جابر بن سلیم بیان کرتے ہیں، میں مدینہ آیا تو میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ لوگ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں، وہ جو کہتا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ انہوں نے بتایا: یہ اللہ کے رسول ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے دو مرتبہ کہا: علیک السلام یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”علیک السلام نہ کہو، علیک السلام تو میت کے لیے دعا و سلام ہے، کہو، السلام علیک۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”میں اس اللہ کا رسول ہوں کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے اور تو اس سے دعا کرے تو وہ تکلیف کو تجھ سے دور کر دے، اور اگر تو قحط سالی میں مبتلا ہو جائے اور اس سے دعا کرے تو وہ تجھے سرسبزی و شادابی عطا فرما دے، جب تو کسی ریگستان یا صحرا میں ہو اور تیری سواری گم ہو جائے، پھر تو اس سے دعا کرے تو وہ اسے واپس لوٹا دے، میں نے عرض کیا: مجھے کوئی وصیت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کو گالی نہ دینا۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے پھر اس کے بعد کسی آزاد کو گالی دی نہ کسی غلام کو نہ کسی اونٹ کو نہ ہی کسی بکری کو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نیکی کے کسی کام کو حقیر نہ جاننا، اگر تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرے تو یہ بھی نیکی ہے، اپنا ازار نصف پنڈلی تک رکھ، اگر تو ایسے نہ کرے تو پھر ٹخنوں تک، اور (ٹخنوں سے نیچے) ازار (تہبند، شلوار، پاجامہ وغیرہ) لٹکانے سے اجتناب کر، کیونکہ یہ تکبر ہے، اور اللہ تکبر پسند نہیں کرتا اور اگر کوئی آدمی تجھے گالی دے اور تجھ پر عیب لگائے جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ وہ (عیب) تم میں موجود ہے، تو اس کے متعلق جو تم جانتے ہو، اس پر عیب نہ لگاؤ اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ “ ابوداؤد، امام ترمذی نے اس حدیث سے سلام والا حصہ روایت کیا ہے اور ایک روایت میں ہے: ”تمہیں اس کا اجر ملے گا جبکہ اس پر وبال ہو گا۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4084) والترمذي (2721. 2722 وقال: حسن صحيح.)»