وعن ابي هريرة انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن ثلاثة في بني إسرائيل ابرص واقرع واعمى فاراد الله ان يبتليهم فبعث إليهم ملكا فاتى الابرص فقال اي شيء احب إليك قال لون حسن وجلد حسن ويذهب عني الذي قد قذرني الناس» قال: «فمسحه فذهب عنه قذره واعطي لونا حسنا وجلدا حسنا قال فاي المال احب إليك قال الإبل-او قال البقر شك إسحق-إلا ان الابرص او الاقرع قال احدهما الإبل وقال الآخر البقر قال فاعطي ناقة عشراء فقال بارك الله لك فيها» قال: «فاتى الاقرع فقال اي شيء احب إليك قال شعر حسن ويذهب عني هذا الذي قد قذرني الناس» . قال: فمسحه فذهب عنه واعطي شعرا حسنا قال فاي المال احب إليك قال البقر فاعطي بقرة حاملا قال: «بارك الله لك فيها» قال: «فاتى الاعمى فقال اي شيء احب إليك قال ان يرد الله إلي بصري فابصر به الناس» . قال: «فمسحه فرد الله إليه بصره قال فاي المال احب إليك قال الغنم فاعطي شاة والدا فانتج هذان وولد هذا قال فكان لهذا واد من الإبل ولهذا واد من البقر ولهذا واد من الغنم» . قال: «ثم إنه اتى الابرص في صورته وهيئته فقال رجل مسكين قد انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك اسالك بالذي اعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا اتبلغ عليه في سفري فقال الحقوق كثيرة فقال له كاني اعرفك الم تكن ابرص يقذرك الناس فقيرا فاعطاك الله مالا فقال إنما ورثت هذا المال كابرا عن كابر فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت» . قال: «واتى الاقرع في صورته فقال له مثل ما قال لهذا ورد عليه مثل ما رد على هذا فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت» . قال: «واتى الاعمى في صورته وهيئته فقال رجل مسكين وابن سبيل انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك اسالك بالذي رد عليك بصرك شاة اتبلغ بها في سفري فقال قد كنت اعمى فرد الله إلي بصري فخذ ما شئت ودع ما شئت فوالله لا اجهدك اليوم شيئا اخذته لله فقال امسك مالك فإنما ابتليتم فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك» وَعَن أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ ثَلَاثَة فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ» قَالَ: «فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْإِبِلُ-أَوْ قَالَ الْبَقر شكّ إِسْحَق-إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوِ الْأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ الْبَقَرُ قَالَ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا» قَالَ: «فَأتى الْأَقْرَع فَقَالَ أَي شَيْء أحب إِلَيْك قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ» . قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا قَالَ: «بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا» قَالَ: «فَأَتَى الْأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ» . قَالَ: «فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْغَنَمُ فَأُعْطِيَ شَاة والدا فأنتج هَذَانِ وَولد هَذَا قَالَ فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنِ الْإِبِلِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ» . قَالَ: «ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحسن وَالْجَلد الْحسن وَالْمَال بَعِيرًا أتبلغ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ الْحُقُوق كَثِيرَة فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ مَالًا فَقَالَ إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ» . قَالَ: «وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ» . قَالَ: «وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِيَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لَا أجهدك الْيَوْم شَيْئا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فقد رَضِي عَنْك وَسخط على صاحبيك»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بنی اسرائیل کے تین آدمی تھے، برص میں مبتلا شخص، گنجا اور اندھا، اللہ نے انہیں آزمانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا، وہ برص کے مریض شخص کے پاس آیا تو کہا تمہیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اچھا رنگ اور خوبصورت جلد، اور یہ بیماری مجھ سے ہٹا دی جائے، جس کی وجہ سے لوگ مجھے نا پسند کرتے ہیں، راوی بیان کرتے ہیں، اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا، اور اسے بہترین رنگت اور بہترین جلد عطا کر دی گئی، اس (فرشتے) نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: اونٹ یا اس نے کہا گائے۔ “ اسحاق راوی کو شک ہوا کہ برص کے مریض اور گنجے ان دونوں میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے کہا، فرمایا: ”اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی تو اس (فرشتے) نے کہا: اللہ ان کے بارے میں تمہیں برکت عطا فرمائے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: ”پھر وہ گنجے کے پاس گیا تو اس نے کہا: تمہیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت زلفیں اور مجھ سے یہ تکلیف دور کر دی جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے نا پسند کرتے ہیں۔ “ راوی نے کہا: ”اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ تکلیف جاتی رہی، اسے خوبصورت زلفیں عطا کر دی گئیں، پھر اس نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: گائے، اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور فرشتے نے کہا: اللہ اس میں تمہیں برکت عطا فرمائے، راوی نے کہا: پھر وہ نابینے شخص کے پاس گیا تو کہا: تمہیں کون سی چیز زیادہ محبوب ہے؟ اس نے کہا: اللہ مجھے میری بصارت لوٹا دے تاکہ میں اس کے ذریعے لوگوں کو دیکھ سکوں۔ “ راوی نے کہا: ”اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اسے اس کی بصارت لوٹا دی، پھر اس نے پوچھا: تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا بکریاں، پھر اسے حاملہ بکری دے دی گئی، پھر اونٹ، گائے اور بکری نے بچے دیے، تو اس (برص والے) کے ہاں وادی بھر اونٹ ہو گئے، اس کے ہاں وادی بھر گائے ہو گئیں اور اس (نابینے) کے ہاں وادی بھر بکریاں ہو گئی۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: ”پھر وہ (فرشتہ) اسی صورت و ہیئت میں برص میں مبتلا شخص کے پاس آیا تو اس نے کہا: مسکین آدمی ہوں، دوران سفر اسباب ختم ہو چکے ہیں، آج مجھے صرف اللہ کا سہارا ہے یا پھر میں تم سے اس ذات کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، جس نے تجھے بہترین رنگت اور بہترین جلد اور مال عطا کیا، کہ تم مجھے ایک اونٹ دے دو جس کے ذریعے میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا، اس شخص نے کہا: حقوق بہت زیادہ ہیں، (کس کس کو دوں)، اس (فرشتے) نے کہا: ایسے لگتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تم برص میں مبتلا نہیں تھے، لوگ تجھے نا پسند کرتے تھے اور تم فقیر تھے، اللہ نے تمہیں مال عطا کیا، اس شخص نے کہا: یہ مال تو مجھے آباؤو اجداد سے ملا ہے، اس فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں پہلے کی طرح کر دے گا۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: ”پھر وہ اپنی اسی صورت میں گنجے شخص کے پاس گیا تو اس نے اسے بھی وہی بات کہی جو اس نے اس (برص والے) سے کہی تھی، اور اس نے ویسے ہی جواب دیا جیسے اس شخص نے جواب دیا تھا، فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں پھر پہلے کی طرح کر دے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: ”پھر وہ اپنی اسی صورت و ہیئت میں نابینے شخص کے پاس گیا تو کہا: مسکین آدمی اور مسافر ہوں، میرے دوران سفر اسباب منقطع ہو گئے ہیں، آج منزل تک پہنچنے کے لیے مجھے اللہ کا سہارا ہے، اور پھر میں تم سے اس ذات کا وسیلہ بنا کر سوال کرتا ہوں جس نے تمہاری بینائی لوٹائی کہ تم ایک بکری دے دو، جس کے ذریعے میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا، اس شخص نے کہا: یقیناً میں ایک نابینا شخص تھا، اللہ نے میری بینائی لوٹا دی، جو چاہو لے جاؤ اور چاہو چھوڑ جاؤ، اللہ کی قسم! آج جو کچھ تم اللہ کی خاطر اٹھاؤ گے اس پر میں تم پر کوئی سختی نہیں کروں گا، اس (فرشتے) نے کہا: اپنا مال اپنے پاس رکھو، تمہاری تو آزمائش کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ تم پر راضی ہو گیا اور تیرے دو ساتھیوں پر ناراض ہو گیا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3464) و مسلم (2961/6)»