حدثنا مسعدة بن سعد العطار المكي ، حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي ، حدثنا إسحاق بن إبراهيم مولى مزينة، حدثنا عكرمة بن مصعب بن ثابت ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، عن جده، عن ابي قتادة، قال: خرج معاذ بن جبل لطلب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فلم يجده، فطلبه في بيوته، فلم يجده، فاتبعه في سكة حتى دل عليه في جبل ثواب فخرج حتى رقي جبل ثواب، فنظر يمينا وشمالا، فبصر به في الكهف الذي اتخذ الناس إليه طريقا إلى مسجد الفتح، قال معاذ: فإذا هو ساجد، فهبطت من راس الجبل، وهو ساجد، فلم يرفع راسه حتى اسات به الظن، فظننت ان قد قبض، فلما رفع راسه، قلت: يا رسول الله،" لقد اسات بك الظن، وظننت انك قد قبضت، فقال: جاءني جبريل عليه السلام بهذا الموضع، فقال: إن الله عز وجل يقرئك السلام، ويقول لك: ما تحب ان اصنع بامتك؟، قلت: الله اعلم، فذهب، ثم جاءني، فقال إنه يقول: لا اسوءك في امتك، فسجدت، فافضل ما يتقرب به إلى الله السجود"، لا يروى عن ابي قتادة، عن معاذ، إلا بهذا الإسناد، تفرد به إبراهيم بن المنذرحَدَّثَنَا مَسْعَدَةُ بْنُ سَعْدٍ الْعَطَّارُ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ مَوْلَى مُزَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ لِطَلَبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَجِدْهُ، فَطَلَبَهُ فِي بُيُوتِهِ، فَلَمْ يَجِدْهُ، فَأَتْبَعَهُ فِي سِكَّةٍ حَتَّى دُلَّ عَلَيْهِ فِي جَبَلِ ثَوَابٍ فَخَرَجَ حَتَّى رَقِيَ جَبَلَ ثَوَابٍ، فَنَظَرَ يَمِينًا وَشِمَالا، فَبَصُرَ بِهِ فِي الْكَهْفِ الَّذِي اتَّخَذَ النَّاسُ إِلَيْهِ طَرِيقًا إِلَى مَسْجِدِ الْفَتْحِ، قَالَ مُعَاذٌ: فَإِذَا هُوَ سَاجِدٌ، فَهَبَطْتُ مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ حَتَّى أَسَأْتُ بِهِ الظَّنَّ، فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ قُبِضَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" لَقَدْ أَسَأْتُ بِكَ الظَّنَّ، وَظَنَنْتُ أَنَّكَ قَدْ قُبِضْتَ، فَقَالَ: جَاءَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ بِهَذَا الْمَوْضِعِ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُقْرِئُكَ السَّلامَ، وَيَقُولُ لَكَ: مَا تُحِبُّ أَنْ أَصْنَعَ بِأُمَّتِكَ؟، قُلْتُ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَذَهَبَ، ثُمَّ جَاءَنِي، فَقَالَ إِنَّهُ يَقُولُ: لا أَسُوءُكَ فِي أُمَّتِكَ، فَسَجَدْتُ، فَأَفْضَلُ مَا يُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ السُّجُودُ"، لا يُرْوَى عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ مُعَاذٍ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ
سیدنا ابوقتادہ کہتے ہیں: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے تو کہیں نہ پایا، پھر گھروں میں تلاش کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے، پھر وہ گلی گلی پھرنے لگے یہاں تک جبلِ ثواب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ چلا تو وہ نکلے اس پر چڑھ گئے تو دائیں بائیں دیکھا تو اس غار میں دیکھا جسے لوگوں نے مسجد فتح کی طرف راستہ بنایا تھا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سجدے میں گرے ہوئے تھے، تو میں پہاڑ کی چوٹی سے اترا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر نہ اٹھایا تو میرے دل کو شکوک آگئے، میں نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے، پھر جب سر اٹھایا تو میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ کے متعلق غلط خیال کیا تھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس اس جگہ جبریل علیہ السلام آئے تو کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں سلام فرماتے ہیں اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ اپنی امّت کے ساتھ کونسا سلوک پسند کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر وہ چلے گئے اور پھر آئے اور کہنے لگے: ہم تجھے تیری امّت کے متعلق غم ناک نہیں کریں گے، تو میں نے سجدہ کیا، تو بہت فضیلت والی جگہ جس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے وہ سجدہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 9105، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1097»