من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 27. باب في زَكَاةِ الْفِطْرِ: صدقہ فطر کا بیان
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے فطرے کی زکاة (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی، ہر مسلمان آزاد، غلام، مرد و عورت پر۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا آپ بھی یہی کہتے ہیں یعنی ایک صاع کے قائل ہیں؟ فرمایا: امام مالک رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1702]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1504]، [مسلم 984]، [مسند ابي يعلی 5834]، [ابن حبان 3300] و [الحميدي 718] وضاحت:
(تشریح حدیث 1698) صاع ایک پیمانہ ہے جو یہاں سعودی عرب میں آج بھی رائج ہے، اس کا وزن شیخ محمد صالح العثیمن رحمۃ اللہ علیہ نے دو کلو چالیس گرام بتایا ہے، پرانے حساب میں تقریباً پونے تین سیر ہوتا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ہر چھوٹے، بڑے، آزاد و غلام کی طرف سے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو صدقہ فطر کا حکم دیا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پس لوگوں نے اس کو گیہوں کے دو مد کے مساوی قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1703]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 1699) چھوٹے بڑے یا غلام کے صدقۂ فطر سے مراد یہ ہے کہ جو شخص ان کا کفیل ہو وہ ان کی طرف سے زکاةِ فطر (فطرہ) ادا کرے جو ایک صاع کھجور ہو یا جو اور گیہوں، واضح رہے کہ ایک صاع عربی حساب میں چار مد کا ہوتا ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع فرض قرار دیا اور لوگ نصف صاع دینے لگے، تفصیل آگے آ رہی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ موجود تھے تو ہم ہر چھوٹے بڑے اور غلام کی طرف سے ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش کا صدقہ فطر نکالا کرتے تھے، اور اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ حج یا عمرے کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ میں تشریف لائے تو کہا کہ میرے خیال سے اس شامی گیہوں کے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، پس لوگوں نے یہی بات پکڑ لی (یعنی گیہوں کا فطرہ آدھا صاع)، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن میں تو اتنا ہی فطرہ نکالتا ہوں جتنا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) نکالا کرتا تھا (یعنی پورا ایک صاع)، امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میری رائے میں مذکورہ کسی بھی جنس کا ایک صاع فطرہ نکالنا چاہئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1704]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1506]، [مسلم 985]، [أبوداؤد 1616]، [ترمذي 673]، [نسائي 2510]، [ابن ماجه 1829]، [أبويعلی 1227]، [ابن حبان 3305]، [مسندالحميدي 718] وضاحت:
(تشریح حدیث 1700) اس حدیث میں «صَاعًا مِنْ طَعَامٍ» کا لفظ آیا ہے جس سے اکثر علماء کے نزدیک گیہوں ہی مقصود ہے، بعض نے کہا کہ جو کے علاوہ دوسرے غلہ جات مراد ہیں، اس حدیث میں فطرے کی اجناس ذکر کی گئی ہیں، جو غلہ، کھجور، جَو، پنیر یا زبیب ہیں (زبیب سوکھا انگور، کشمش یا انجیر کو کہتے ہیں)، ان اجناس میں سے کوئی ایک چیز ہر فرد کی طرف سے ایک صاع فطرے کے دینا فرض ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک صاع چھوڑ کر صرف نصف صاع ڈیڑھ کلو فطره دینا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے سے تھا جس کو بہت سے صحابہ نے قبول نہیں کیا، ان میں سے اس حدیث کے راوی سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بھی ہیں جو فرماتے ہیں کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک صاع فطرہ نکالتا تھا اور اب بھی ایک صاع ہی نکالتا ہوں، اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو اپنی طرف سے کچھ نہ کہتے تھے: « ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ [النجم: 3، 4] »، امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی ایک صاع فطرہ نکالنے کو ترجیح دی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رمضان کا صدقہ فطر غلے میں سے ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا جَو میں سے ایک صاع یا زبیب کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع نکالا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1705]»
اس حدیث کی سند قوی ہے اور تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [موطأ امام مالك: كتاب الزكاة 54 باب مكيلة الزكاة] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدقہ فطر نکالتے تھے اور پھر اوپر جیسا ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1706]»
اس روایت کی تخریج بھی اوپر گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1701 سے 1703) صدقہ الفطر یا زكاة الفطر یا زکاة الصيام وہ صدقہ ہے جو عید الفطر کی نماز سے پہلے ہر مسلمان مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، غلام و آزاد کی طرف سے صدقہ کیا جاتا ہے اور یہ ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کا فائدہ شریعت میں یہ بتلایا گیا کہ «طُهْرَهٌ لِلصَّائِمِ طُعْمَةٌ لِلْمَسَاكِيْنَ.» روزے دار کے روزوں میں جو خلل واقع ہوا ہو اس کا کفارہ اور عید کے دن مساکین کے لئے کھانا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|