من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 20. باب النَّهْيِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ: مانگنے، سوال کرنے کی ممانعت کا بیان
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، میں نے پھر مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا، میں نے پھر مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حکیم! یہ مال بڑا سرسبز و شیریں ہے، لیکن جو شخص اس کو اپنے دل کو سخی رکھ کر لے گا تو اس کے مال میں برکت ہو گی، اور جو لالچ کے ساتھ اس مال کو لے گا تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہ ہو گی، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کھائے لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1690]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ [بخاري 1472]، [مسلم 1035]، [نسائي 2600]، [ابن حبان 3220]، [الحميدي 563] وضاحت:
(تشریح حدیث 1687) اس حدیث میں حکیمِ انسانیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قناعت پسند اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لئے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اس کے لئے کافی ہو سکے گا، اس کی زندگی بڑے ہی سکون اور اطمینان کی زندگی ہوگی۔ اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا ہے خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہو جائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے، ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ (راز رحمۃ اللہ علیہ)۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کے بعد سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا حالانکہ لمبی عمر پائی اور 64ھ میں 120 سال کی عمر میں انتقال ہوا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو ہمیشہ دل سے لگائے رکھا، یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا: لوگو! گواہ رہنا میں حکیم بن حزام کو مال دیتا ہوں وہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ رضی اللہ عنہم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
|