من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 8. باب النَّهْيِ عَنِ الْفَرْقِ بَيْنَ الْمُجْتَمِعِ وَالْجَمْعِ بَيْنَ الْمُتَفَرِّقِ: اکٹھے مال کو جدا کرنا اور جدا جدا مال کو اکٹھا کرنے کی ممانعت
سیدنا سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا آیا تو میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑا، اس کے قانون کو پڑھا جس میں لکھا تھا کہ متفرق مال جمع نہ کیا جائے اور نہ جمع شدہ مال زکاة کے ڈر سے الگ الگ کیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إلى سويد، [مكتبه الشامله نمبر: 1670]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1579، 1580]، [ابن ماجه 1801]، [نسائي 2456]، [أبويعلی 127] وضاحت:
(تشریح حدیث 1667) اس کی مثال اس طرح ہے کہ تین آدمیوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں ہوں، زکاۃ کے وقت وہ سب کو ملا کر اکٹھا کر دیں تاکہ ایک بکری زکاة میں دینی پڑے کیونکہ الگ الگ ہوں گی تو ہر ایک کو ایک ایک بکری دینی پڑے گی، یا یہ کہ دو آدمیوں کے پاس ایک ریوڑ میں 110، 110 بکریاں تھیں جن میں زکاة کی تین بکریاں واجب ہیں، اب وہ دونوں زکاة کے وقت اپنی اپنی 110 بکریاں الگ کر لیں تاکہ ایک ایک بکری ہی دینی پڑے تو یہ ناجائز ہے، اسی طرح مصدق کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ اکٹھے مال یا ریوڑ کو الگ کرے یا الگ الگ مال یا ریوڑ کو اکٹھا ایک جگہ کر کے زبردستی زکاة لے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إلى سويد
|