من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 18. باب في الاِسْتِعْفَافِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ: مانگنے سے بچنے کا بیان
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے انہیں عطا فرما دیا، انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں دے دیا، یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جو کچھ بھی مال و دولت ہے میں اسے تم سے بچا کرنہیں رکھوں گا، مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے (یعنی اس کو مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی) اور جو شخض (سوال سے) بے نیازی برتتا ہے تو الله تعالیٰ اسے بے نیاز (غنی) بنا دیتا ہے، اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر صبر کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی ایسا عطیہ نہیں دیا گیا ہے جو صبر سے زیادہ بہتر اور بے پایاں ہو۔ (یعنی صبر قدرت کا بہت بہتر اور بے پایاں عطیہ ہے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1686]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1469]، [مسلم 1053]، [أبوداؤد 1644]، [ترمذي 2044]، [نسائي 2587]، [أبويعلی 1129]، [ابن حبان 2400] وضاحت:
(تشریح حدیث 1683) شریعتِ اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے، سوال کرنے (مانگنے) سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زورِ بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیب دلائی ہے، مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد و عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں، ان کے لئے فرمایا: « ﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴾ [الضحىٰ: 10] » یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔ (راز) اس حدیث سے صبر کی اور قناعت پسندی کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے اور یہ کہ «اَلْجَزَاءُ مِنْ جِنْسِ الْعَمَلِ» ہے، اگر انسان بچنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مستغنیٰ کر دیتا ہے اور ہوس تو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|