من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 26. باب الرَّجُلِ يَتَصَدَّقُ بِجَمِيعِ مَا عِنْدَهُ: آدمی کے پاس جو کچھ ہو سب صدقہ کر دے
اسلم نے کہا: میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس بہت مال تھا، میں نے دل میں کہا: آج اگر میں نے سبقت کی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر بازی لے جاؤں گا، چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر حاضر خدمت ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اہل و عیال کے لئے تم نے کیا چھوڑا؟“ عرض کیا: اسی قدر چھوڑ آیا ہوں، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی جو کچھ ان کے پاس تھا سب لے کر آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر گھر بار کے لئے کیا چھوڑا ہے“، عرض کیا: ان کے واسطے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں، تب میں نے کہا: (اے ابوبکر) میں تم سے کبھی آگے نہ بڑھ سکوں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل هشام بن سعد، [مكتبه الشامله نمبر: 1701]»
یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1678]، [ترمذي 3675]، [السنة لابن ابي عاصم 1240]، [شرح السنة 180/6] وضاحت:
(تشریح حدیث 1697) اس حدیث سے سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت ثابت ہوئی جو اللہ کے راستے میں اپنا مال و دولت قربان کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔ پھر بڑوں کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ میں کبھی آپ سے بازی نہیں لے جاسکتا ہوں، نیز اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آدمی اپنے اہل و عیال، گھر بار کا بھی خیال رکھے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ یقین و توکل ہو تو سب کچھ خیرات بھی کر سکتا ہے۔ نیز یہ کہ قدر و منزلت مال کی مقدار میں نہیں بلکہ نیّت و اخلاص میں ہے۔ واللہ علم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل هشام بن سعد
|