من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 35. باب في فَضْلِ الصَّدَقَةِ: صدقہ کی فضیلت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنی حلال کمائی میں سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ تو حلال ہی قبول فرماتا ہے، تو گویا اس نے (وہ صدقہ) رحمٰن کی ہتھیلی پر رکھ دیا، پھر الله تعالیٰ تم میں سے ایک کی کھجور میں زیادتی کرتا بڑھاتا رہتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ) احد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1717]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1410]، [مسلم 1014]، [ترمذي 661]، [نسائي 2524]، [ابن ماجه 1842]، [ابن حبان 270]، [مسند الحميدي 1188] وضاحت:
(تشریح حدیث 1712) اس حدیث کا مطلب یہ ہے اگر حلال مال تھوڑا سا بھی ہو اور ایک مسلمان اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کرے تو اس کا ثواب بہت ہے جو الله تعالیٰ کے نزدیک بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ پہاڑ کی طرح اس کا ثواب عظیم تر ہوتا جاتا ہے۔ صحیحین کی روایات میں ہے کہ پروردگارِ عالم اسے اپنے دایاں ہاتھ سے قبول کرتا ہے، اس سے اور مذکور بالا حدیث سے الله تعالیٰ کا ہاتھ اور تھیلی کا ثبوت ملا۔ اہلِ حدیث مسلک یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی صفات برحق ہیں، ان پر ایمان لازم ہے، لیکن تشبیہ و تمثیل جائز نہیں، باری تعالیٰ کے ہاتھ ہیں لیکن کیسے ہیں اس کا کسی کو علم نہیں، اور نہ وہ ہمارے ہاتھ یا تھیلی کی طرح ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ دینے سے کوئی مال نہیں گھٹتا، اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے، اور جو بندہ الله تعالیٰ کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1718]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2588]، [ترمذي 2029]، [أبويعلی 6458]، [ابن حبان 3248]، [شعب الايمان 3411] وضاحت:
(تشریح حدیث 1713) اس حدیث سے صدقہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ صدقہ سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے، نیز عفو و کرم اور درگزر سے قدر و منزلت اور شرف و عزت میں بڑھوتری ہوتی ہے، اور عاجزی و انکساری سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجات بلند ہوتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: رفعہ اللہ سے مراد دنیاوی عزت و منزلت اور اخروی بلندیٔ درجات دونوں مراد ہوسکتی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|