من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 3. باب مَنْ لَمْ يُؤَدِّ زَكَاةَ الإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ: جو شخص اونٹ، گائے، بکریوں کی زکاۃ نہ دے اس کی سزا کا بیان
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی اونٹ والا، گائے والا، بکری والا ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے وہ قیامت کے دن سپاٹ زمین پر بٹھایا جائے گا اور کھروں والا جانور اس کو اپنے کھروں سے روندے گا، اور سینگوں والا اپنے سینگوں سے مارے گا، اور اس دن کوئی جانور بے سینگ یا ٹوٹے ہوئے سینگ کا نہ ہو گا“، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کا حق کیا ہے؟ فرمایا: ”اس کے نر کو جفتی کے لئے دینا، اور اس کے ڈول کو مانگے پر دینا، اور دودھ پینے کے لئے مانگے پر دینا، اور پانی پر اس کا دوھنا، اور اس کو اللہ کے راستے میں سواری یا سامان لادنے کے لئے دینا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1657]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 988/28]، [نسائي 2453]، [ابن ابي شيبه 213/3] وضاحت:
(تشریح حدیث 1654) «حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ» کا مطلب ہے اونٹنی کا پانی پر دوہنا (اونٹوں کو کئی دن بعد پانی پلانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، پہلے زمانے میں اس جگہ پر لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے اور وہاں دودھ دوہنے پر کئی فوائد تھے، جانوروں کو آرام ملتا، صفائی ستھرائی ہوتی اور فقراء و مساکین کو دودھ مل جاتا تھا)۔ بعض علماء نے کہا کہ یہ حکم فرضیتِ زکاة سے پہلے کا ہے، جب زکاۃ فرض ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب جانوروں کی زکاۃ نہ دی جائے یا ان کا حق ادا نہ کیا جائے تو وہ قیامت کے دن اپنے مالک کو کھروں اور سینگوں سے روند ڈالیں گے، لہٰذا ان کا حق ادا کرنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن اس عذاب سے محفوظ رہیں۔ اس حدیث سے زکاة کے وجوب کی مزید تشریح اس باب کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں: ”جو اونٹ والا اس کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ بہت سے ہو کر آئیں گے اور ان کا مالک سپاٹ زمین پر بٹھا دیا جائے گا اور وہ اس کو اپنے پیروں اور کھروں سے روندیں گے، اور جو گائے والا اس کا حق ادا نہ کرے گا وہ قیامت کے دن بہت سی گائیں بن کر آئیں گی اور اس کو ایک مسطح زمین پر بٹھا دیا جائے گا اور وہ گائیں اسے سینگوں سے ماریں گی اور پیروں سے روندیں گی، اور جو بکری والا اس کا حق ادا نہیں کرتا وہ بھی قیامت کے دن بہت سی ہو کر آئیں گی اور ان کے مالک کو ایک پٹ زمین پر بٹھا دیا جائے گا اور وہ بکریاں اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریں گی اور اپنے کھروں سے اسے کچل ڈالیں گی، اور اس دن ان میں سے کوئی بے سینگ اور ٹوٹے ہوئے سینگ کی نہ ہو گی، اور جو صاحب خزانہ اس خزانے کا حق ادا نہیں کرتا وہ خزانہ قیامت کے دن گنجا اژدہا بن کر آئے گا منہ کھولے ہوئے (اپنے دنیاوی مالک کا) پیچھا کرے گا، جب وہ اژدہے کی صورت میں (اس مالک) کے پاس پہنچے گا تو وہ بھاگے گا، تو وہ پکارے گا، لے اپنا خزانہ جو تو نے چھپا رکھا تھا، وہ کہے گا: مجھے اس کی حاجت نہیں، پھر جب وہ مالک دیکھے گا کہ یہ اژدہا اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ہے تو اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا اور وہ اسے ایسا چبائے گا جیسے اونٹ چباتا ہے۔“ راوی نے کہا: ابوالزبیر نے کہا: ہم نے عبيد بن عمیر سے سنا، وہ یہی کہتے تھے، پھر ہم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، انہوں نے بھی عبید بن عمیر ہی کی طرح بتایا، اور ابوالزبیر نے کہا: میں نے عبيد بن عمیر سے سنا کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اونٹی کا کیا حق ہے؟ فرمایا: ”اس کو پانی پر دوہنا، اس کا ڈول عاریتاً دینا اور اس کے نر کو نطفے (جفتی) کے لئے مانگنے پر (بلا اجرت کے) دینا اور الله کی راہ میں اس کو سواری میں دینا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1658]»
اس روایت کی سند اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 987]، [نسائي 2453]، [ابن حبان 3255]، [المنتقی 335]، [المحلی 80/6] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھلی حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1659]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1460]، [مسلم 990]، [ترمذي 1617]، [نسائي 2439]، [ابن حبان 3256] وضاحت:
(تشریح احادیث 1655 سے 1657) ان احادیث میں جانوروں کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرنے کا حکم اور ان کا حق ادا نہ کرنے پر سخت سزا کی وعيدِ شدید ہے، مذکورہ بالا احادیث میں زکاة کا ذکر نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو زکاة البقر میں اسی طرح ذکر کیا ہے، اور باب اثم مانع الزكاة (1402) میں یہ لفظ ہے: «إِذَا هُوَ لَمْ يُعْطِ فِيْهَا حَقَّهَا» لیکن اس کا حق کیا ہے اس کی تشریح مذکور نہیں، ہاں (2378) میں اس کا حق مختصراً یہ ذکر ہوا ہے «أَنْ تَحْلِبَ عَلَى الْمَاءِ» اور مسلم شریف کی روایت میں تشریح ہے «لَا تُوَدِّيْ زَكَاتَهَا» جس سے ثابت ہوا کہ ان بہائم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں تو ان کی زکاة ادا کی جائے، جو شخص ایسا نہیں کرے گا قیامت کے دن اس کے یہ چوپائے اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور سینگوں سے ماریں گے، نیز اس حدیث سے قیامت کا ثبوت بھی ملا جو پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا۔ « ﴿فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ﴾ [المعارج: 4] » بعض روایات میں ہے ایک جماعت ان جانوروں کی آئے گی اور اپنا کام کر کے چلی جائے گی اور پھر دوسری تازہ دم جماعت آئے گی اور یہ کام انجام دے گی۔ «(سلمنا اللّٰه وإياكم منه)» ۔ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناه مثالی جسم اختیار کر لیں گے اور وہ جسمانی شکلوں میں سامنے آئیں گے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|