من كتاب الزكاة زکوٰۃ کے مسائل 29. باب الْعُشْرِ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ: زراعت میں عشر کا بیان
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان پھلوں میں سے (زكاة كا) عشر (دسواں حصہ) وصول کروں جو زمین کی تری سے پیدا ہوتے ہوں، اور جو اونٹوں سے سینچے جائیں اس میں سے بیسواں حصہ زکاۃ لوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1709]»
اس روایت کی سند حسن ہے، اور اصل اس کی صحیحین میں ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1483]، [مسلم 981]، [نسائي 2493]، [ابن ماجه 1818] وضاحت:
(تشریح حدیث 1704) مولانا وحیدالزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: اہلِ حدیث کا مذہب یہ ہے کہ گیہوں، جَو، جوار، کھجور اور انگور میں جب ان کی مقدار پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہو تو زکاة واجب ہے، ان کے سوا دوسری چیزوں میں جیسے ترکاریاں اور میوے وغیرہ میں مطلقاً زکاۃ نہیں خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔ قسطلانی نے کہا: میووں میں صرف کھجور اور انگور میں اور اناجوں میں سے ہر ایک اناج میں جو ذخیرہ رکھے جاتے ہیں جیسے گیہوں، جَو، جوار، مسور، ماش، باجرہ، چنا، لوبیا وغیرہ ان سب میں زکاة ہے، اور حنفیہ کے نزدیک پانچ وسق کی قید بھی نہیں ہے، قلیل ہو یا کثیر سب میں زکاة واجب ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لا کر ان کا رد کیا ہے، خلاصۂ کلام یہ کہ مذکورہ اجناس پانچ وسق پورے ہونے پر اگر بارش کے پانی، نہر وغیرہ سے سیرابی ہوئی ہے تو دسواں حصہ زکاة ہے اور کنویں سے، اونٹ یا بیل کے ذریعہ جو پانی کھیتی کو دیا گیا اس میں پانچ وسق پورے ہونے پر نصف العشر یعنی بیسواں حصہ زکوٰة ہے اور یہ دینِ رحمت کا بہت ہی عادلانہ نظام ہے جس میں خیر ہی خیر اور برکت ہی برکت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
|