حج کے مسائل हज्ज के मसले حج کی اقسام کا بیان “ हज्ज कितनी तरह किया जा सकता है ”
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کرنے کے لئے) نکلے۔ ہم نے عمرہ کی لبیک کہی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس قربانی کے جانور ہوں تو وہ عمرے کے ساتھ حج کی لبیک کہے پھر جب تک ان دونوں (حج و عمرہ) سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں مکہ آئی تو میں حیض سے تھی پس میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا و مروہ کی سعی کی پھر میں نے اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے سر کے بال کھول دو اور کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ (کا عمل) چھوڑ دو۔“ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اسی طرح کیا۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا (تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا تو میں نے عمرہ کر لیا پھر آپ نے فرمایا: یہ تمہارے عمرے کی جگہ ہے۔ انہوں نے کہا: جنہوں نے عمرے کی لبیک کہی تھی انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر لی پھر انہوں نے احرام کھول دئیے، پھر انہوں نے منیٰ سے لوٹنے کے بعد حج کا طواف کیا۔ جن لوگوں نے حج (افراد) کی لبیک کہی تھی یا حج اور عمرے (قران) کی لبیک کہی تھی تو انہوں نے (صفا مروہ کے درمیان) صرف ایک طواف کیا۔
تخریج الحدیث: «38- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 410/1، 411ح 951 ك20 ب74ح 223، وعنده: وامتشطى) التمهيد 198/8، الاستذكار: 892، و أخرجه البخاري (1556) ومسلم (1211/111) من حديث مالك به.»
محمد بن عبداﷲ بن الحارث بن نوفل بن عبد المطلب رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے حج کیا تو انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کو حج تمتع کا ذکر کرتے ہوئے سنا، ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ حج تمتع وہی کرتا ہے جو اﷲ تعالی کے حکم کے بارے میں جاہل ہے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بھتیجے! تم نے غلط بات کہی ہے، ضحاک نے کہا: بے شک عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا ہے تو انہوں سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے اجازت دی ہے اور ہم نے آپ کے ساتھ یہ حج تمتع کیا ہے ۔
تخریج الحدیث: «67- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 344/1 ح 778، ك 20 ب 19 ح 60) التمهيد 341/8، 342، الاستذكار: 728، و أخرجه الترمذي (823) والنسائي (152/5 ح 2735) من حديث مالك به وقال الترمذي: ”هٰذا حديث حسن صحيح“.»
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع والے سال (مدینہ طیبہ سے) نکلے۔ ہم میں سے کوئی عمرے کی لبیک کہہ رہا تھا اور کوئی حج اور عمرے (دونوں) کی اور کوئی (صرف) حج کی لبیک کہہ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی لبیک کہی۔ جس نے (صرف) عمرے کی لبیک کہی تھی تو وہ (عمرہ کر کے)حلال ہو گیا یعنی اس نے احرام کھول دیا اور جس نے حج کی یا حج اور عمرے دونوں کی لبیک کہی تھی تو وہ قربانی والے دن تک حالت احرام میں رہا (اس نے قربانی کے بعد احرام کھولا)۔
تخریج الحدیث: «89- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 335/1، ح 753، ك 20 ب 11 ح 36) التمهيد 95/13، الاستذكار: 703، و أخرجه البخاري (1562) ومسلم (1211/118) من حديث مالك به والحديث مختصر منه.»
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی (سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے تو عمرہ کر کے احرام کھول دئیے ہیں اور آپ نے اپنے عمرے سے (ابھی تک) احرام نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں نے اپنے بال چپکا لئے تھے اور قربانی کے جانورروں کو مقرر کر لیا تھا، لہٰذا میں قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولوں گا۔“
تخریج الحدیث: «222- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 3941 ح 908، ك 20 ب 58 ح 80) التمهيد 297/15، الاستذكار:848، و أخرجه البخاري (1566) ومسلم (1229) من حديث مالك به.»
|