علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم حرہ سقیا
۱؎ میں پہنچے جو سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کا محلہ تھا تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اللهم إن إبراهيم كان عبدك وخليلك ودعا لأهل مكة بالبركة وأنا عبدك ورسولك أدعوك لأهل المدينة أن تبارك لهم في مدهم وصاعهم مثلي ما باركت لأهل مكة مع البركة بركتين» ”مجھے وضو کا پانی دو
“، چنانچہ آپ نے وضو کیا، پھر آپ قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور فرمایا:
”اے اللہ! ابراہیم تیرے بندے اور تیرے دوست ہیں اور انہوں نے اہل مکہ کے لیے برکت کی دعا فرمائی، اور میں تیرا بندہ اور تیرا رسول ہوں، اور تجھ سے اہل مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تو ان کے مد اور ان کی صاع میں اہل مکہ کو جو تو نے برکت دی ہے اس کی دوگنا برکت فرما، اور ہر برکت کے ساتھ دو برکتیں
(یعنی اہل مکہ کی دوگنی برکت عطا فرما ۲؎)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن زید اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3914
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
(حرّۃالسقیا) مکہ اورمدینہ کے درمیان مدینہ سے دو دن کے راستے پر ایک جگہ کا نام ہے۔
2؎:
مکہ میں اگرچہ اللہ کا گھر ہے،
مگر مکہ والوں نے اللہ کے سب سے محبوب بندے کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو مدینہ نے محبوب الٰہی کو پناہ دی جو آپﷺ کی آخری پناہ ہو گئی،
نیز یہیں کے باشندوں نے اسلام کو پناہ دی،
اس کے لیے قربانیاں پیش کیں،
جان ومال کا نذرانہ پیش کر دیا،
سارے عالم میں یہیں سے اسلام کا پھیلاؤ ہوا،
اس لیے مدینہ کے لیے دوگنی برکت کی دعا فرمائی،
اس دعاء کا اثر ہر زائر مکہ کے لیے واضح طور پر دیکھی سنی حقیقت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3914