طاؤس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اس آیت
«قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربى» ”اے نبی! کہہ دو میں تم سے
(اپنی دعوت و تبلیغ کا) کوئی اجر نہیں مانگتا، ہاں چاہتا ہوں کہ قرابت داروں میں الفت و محبت پیدا ہو
“ (الشوریٰ: ۲۳)، کے بارے میں پوچھا گیا، اس پر سعید بن جبیر نے کہا:
«قربیٰ» سے مراد آل محمد ہیں، ابن عباس نے کہا:
(تم نے رشتہ داری کی تشریح میں جلد بازی کی ہے) قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں آپ کی رشتہ داری نہ ہو،
(آیت کا مفہوم ہے) اللہ نے کہا: میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا
(بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ) ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا پاس و لحاظ رکھو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہما سے آئی ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4818
4818. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ان سے کسی نے پوچھا کہ ﴿إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰ﴾ کا مطلب کیا ہے؟ حضرت سعید بن جبیر نے (جھٹ سے) کہہ دیا: اس سے آل محمد ﷺ کی قرابت مراد ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم جلد بازی کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے نبی ﷺ کی کچھ نہ کچھ قرابت نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کا معاملہ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان موجود ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4818]
حدیث حاشیہ:
وحاصل کلام ابن عباس أن جمیع قریش أقارب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولیس المراد من الآیة بنو ھاشم ونحوھم کما یتبادر إلی الذھن من قول سعید بن جبیر یعنی ابن عباس رضی اللہ عنھما کے قول کا مطلب یہ ہے کہ آیت میں اقارب نبوی سے مراد سارے قریش ہیں، خاص بنو ہاشم مراد لینا صحیح نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4818
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3497
3497. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے ”البتہ میں قرابت کی محبت چاہتا ہوں“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ قریش کاکوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے نبی کریم ﷺ کی قرابت نہ ہو۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ میرے اور اپنے درمیان قرابت کا خیال کرو اور صلہ رحمی کرو۔ سعید بن جبیر اس سے حضرت محمد ﷺ کی قرابت مراد لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3497]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے، شاید چونکہ اس حدیث میں رشتہ داری کا بیان ہے اور رشتہ داری کا پہچاننا نسب کے پہچاننے پر موقوف ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس باب میں یہ حدیث بیان کی۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3497
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3497
3497. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے ”البتہ میں قرابت کی محبت چاہتا ہوں“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ قریش کاکوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے نبی کریم ﷺ کی قرابت نہ ہو۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ میرے اور اپنے درمیان قرابت کا خیال کرو اور صلہ رحمی کرو۔ سعید بن جبیر اس سے حضرت محمد ﷺ کی قرابت مراد لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3497]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت طاؤس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت کے متعلق سوال ہوا تو حضرت سعید بن جبیر پھٹ سے بول پڑے کہ اس سے آپ کی آل مراد ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
تم نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔
بات دراصل یہ ہےکہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہلوایا اگر تم کچھ اور نہیں کرتے تو کم از کم قرابت ہی کا لحاظ رکھو اور مجھے تکلیف پہنچانے سے بازرہو۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4818)
2۔
پہلی روایت میں ذکر تھا کہ قریش کو تمام قبائل عر ب پر فضیلت حاصل ہے اور اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺ کی قریش کے تمام قبائل سے قرابت داری ہے۔
اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺ کو تمام عرب پر فضیلت حاصل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3497
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4818
4818. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ان سے کسی نے پوچھا کہ ﴿إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰ﴾ کا مطلب کیا ہے؟ حضرت سعید بن جبیر نے (جھٹ سے) کہہ دیا: اس سے آل محمد ﷺ کی قرابت مراد ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم جلد بازی کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے نبی ﷺ کی کچھ نہ کچھ قرابت نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس قرابت داری کی وجہ سے صلہ رحمی کا معاملہ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان موجود ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4818]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے آ پ کی رشتے داری صرف بنو عبدالمطلب ہی سے نہیں بلکہ قریش کے سب قبیلوں سے تھی اور بنو عبدالمطلب میں سے بھی کچھ لوگ آپ کے حق میں تھے اور کچھ سخت دشمن بھی تھے۔
ابولہب لعین کی دشمنی تو سب جانتے ہیں۔
یہی حال قریش کے باقی قبیلوں کا تھا۔
ایسے حالات میں آپ نے فرمایا:
”تم کم از کم میری قرابتداری کا تو خیال رکھو۔
“2۔
بعض حضرات نے قربیٰ سے مراد قرب یا تقرب لیا ہے۔
اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ میں تم سے اس کام پر اس بات کے سوا اور کوئی جزا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے، یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ اور اللہ سے محبت کرنے لگو۔
بس یہی میرا اجر ہے، لیکن ہم نے پہلے معنی جو بیان کیے ہیں وہ اس تفسیر کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہیں۔
3۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ آیت کریمہ میں اقارب سے مراد تمام قریش ہیں، صرف بنوہاشم مراد لینا صحیح نہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4818