بنی مرہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں کوفہ آیا مجھے بلال بن ابوبردہ
۱؎ کے حالات کا علم ہوا تو میں نے
(جی میں) کہا کہ ان میں عبرت و موعظت ہے، میں ان کے پاس آیا، وہ اپنے اس گھر میں محبوس و مقید تھے جسے انہوں نے خود
(اپنے عیش و آرام کے لیے) بنوایا تھا، عذاب اور مار پیٹ کے سبب ان کی ہر چیز کی صورت و شکل بدل چکی تھی، وہ چیتھڑا پہنے ہوئے تھے، میں نے کہا: اے بلال! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، میں نے آپ کو اس وقت بھی دیکھا ہے جب آپ بغیر دھول اور گردوغبار کے
(نزاکت و نفاست سے) ناک پکڑ کر ہمارے پاس سے گزر جاتے تھے، اور آج آپ اس حالت میں ہیں؟ انہوں نے کہا: تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا: بنی مرہ بن عباد سے، انہوں نے کہا: کیا میں تم سے ایک ایسی حدیث نہ بتاؤں جس سے امید ہے کہ اللہ تمہیں اس سے فائدہ پہنچائے گا، میں نے کہا: پیش فرمائیے، انہوں نے کہا: مجھ سے میرے باپ ابوبردہ نے بیان کیا اور وہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس کسی بندے کو چھوٹی یا بڑی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس کے گناہ کے سبب ہی پہنچتی ہے، اور اللہ اس کے جن گناہوں سے درگزر فرما دیتا ہے وہ تو بہت ہوتے ہیں
“۔ پھر انہوں نے آیت پڑھی
«وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير» (الشورى: 30) پڑھی
۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3252
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے،
بصرہ کے قاضی تھے،
بڑے متکبراور ظالم تھے،
کسی وجہ سے قید کر دیئے گئے تھے۔
2؎:
تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے پہنچتی ہے،
اور بہت سے گناہ تو وہ (یونہی) معاف کر دیتا ہے،
یعنی ان کی وجہ سے مصیبت میں نہیں ڈالتا۔
(الشوریٰ: 30)
نوٹ:
(سند میں ”شیخ من بنی مرہ“ مبہم راوی ہے،
نیز عبیداللہ بن الوازع الکلابی البصری مجہول ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3252