كتاب الأدب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: اسلامی اخلاق و آداب 70. باب مَا جَاءَ فِي إِنْشَادِ الشِّعْرِ باب: شعر پڑھنے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسان رضی الله عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھتے تھے جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فخریہ اشعار پڑھتے تھے۔ یا وہ اپنی شاعری کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرماتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ حسان کی مدد روح القدس (جبرائیل) کے ذریعہ فرماتا ہے جب تک وہ (اپنے اشعار کے ذریعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے فخر کرتے یا آپ کا دفاع کرتے ہیں“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اور یہ حدیث ابن ابی الزناد کی روایت سے ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 95 (5015) (تحفة الأشراف: 16351، و17020) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (1657)
بیان کیا مجھ سے اسماعیل بن موسیٰ اور علی بن حجر نے اور ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی الزناد نے بیان کیا اور ابن ابی الزناد نے اپنے باپ ابوالزناد سے، ابوالزناد نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور براء رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (1657)
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» ”اے کفار کی اولاد! اس کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی“ عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”انہیں کہنے دو، عمر! یہ اشعار ان (کفار و مشرکین) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ زود اثر ہیں (یہ انہیں بوکھلا کر رکھ دیں گے)“۔
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر سے اور معمر نے زہری کے واسطہ سے انس سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے (اس وقت) کعب بن مالک آپ کے ساتھ آپ کے سامنے موجود تھے۔ بعض محدثین کے نزدیک یہ زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں مارے گئے ہیں۔ اور عمرۃ القضاء اس کے بعد ہوا ہے ۱؎۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 109 (2876)، و 121 (2896) (تحفة الأشراف: 266) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حافظ ابن حجر نے امام ترمذی کے اس قول پر نقد کیا ہے، کہتے ہیں: امام ترمذی کا یہ کہنا کہ عمرۃ القضاء جنگ موتہ کے بعد ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (210)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ان سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی شعر بطور مثال اور نمونہ پیش کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن رواحہ کا شعر بطور مثال پیش کرتے تھے، آپ کہتے تھے: «ويأتيك بالأخبار من لم تزود» ۱؎
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 287 (997) (تحفة الأشراف: 16148) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پورا شعر اس طرح ہے: «ستبدى لك الأيام ماكنت جاهلا ويأتيك بالأخبار من لم تزود» ”زمانہ تمہارے سامنے وہ چیزیں ظاہر اور پیش کرے گا جن سے تم ناواقف اور بیخبر ہو گے، اور تمہارے پاس وہ آدمی خبریں اور اطلاعات لے کر آئے گا جس کو تم نے خرچہ دے کر اس کام کے لیے بھیجا بھی نہ ہو گا“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2057)
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرب کا بہترین شعری کلام لبید کا یہ شعر ہے: «ألا كل شيء ما خلا الله باطل» ”سن لو! اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسے ثوری اور ان کے علاوہ نے بھی عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 26 (3841)، والأدب 90 (6147)، والرقاق 29 (6489)، صحیح مسلم/الشعرح 2 (2256)، سنن ابن ماجہ/الأدب 41 (3757) (تحفة الأشراف: 14976)، و مسند احمد (2/248، 391، 393، 444، 458، 470، 481) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ: " أصدق ... " مختصر الشمائل (207)، فقه السيرة (27)
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سو بار سے زیادہ بیٹھنے کا شرف حاصل ہے، آپ کے صحابہ شعر پڑھتے (سنتے و سناتے) تھے، اور جاہلیت کی بہت سی باتیں باہم ذکر کرتے تھے۔ آپ چپ بیٹھے رہتے اور کبھی کبھی ان کے ساتھ مسکرانے لگتے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے زہیر بھی نے سماک سے روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2176) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (211)
|