سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
Chapters on Manners
70. باب مَا جَاءَ فِي إِنْشَادِ الشِّعْرِ
70. باب: شعر پڑھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2847
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا جعفر بن سليمان، حدثنا ثابت، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل مكة في عمرة القضاء وعبد الله بن رواحة بين يديه يمشي وهو يقول: خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله فقال له عمر: يا ابن رواحة بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي حرم الله تقول الشعر، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " خل عنه يا عمر، فلهي اسرع فيهم من نضح النبل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد روى عبد الرزاق هذا الحديث ايضا عن معمر، عن الزهري، عن انس، نحو هذا، وروي في غير هذا الحديث ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل مكة في عمرة القضاء، وكعب بن مالك بين يديه، وهذا اصح عند بعض اهل الحديث، لان عبد الله بن رواحة قتل يوم مؤتة، وإنما كانت عمرة القضاء بعد ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَمْشِي وَهُوَ يَقُولُ: خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي حَرَمِ اللَّهِ تَقُولُ الشِّعْرَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ، فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّزَّاقِ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَ هَذَا، وَرُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ، وَكَعْبُ بْنُ مَالِكٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، لِأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ قُتِلَ يَوْمَ مُؤْتَةَ، وَإِنَّمَا كَانَتْ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ بَعْدَ ذَلِكَ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» اے کفار کی اولاد! اس کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: انہیں کہنے دو، عمر! یہ اشعار ان (کفار و مشرکین) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ زود اثر ہیں (یہ انہیں بوکھلا کر رکھ دیں گے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر سے اور معمر نے زہری کے واسطہ سے انس سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے (اس وقت) کعب بن مالک آپ کے ساتھ آپ کے سامنے موجود تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
بعض محدثین کے نزدیک یہ زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں مارے گئے ہیں۔ اور عمرۃ القضاء اس کے بعد ہوا ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: حافظ ابن حجر نے امام ترمذی کے اس قول پر نقد کیا ہے، کہتے ہیں: امام ترمذی کا یہ کہنا کہ عمرۃ القضاء جنگ موتہ کے بعد ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 109 (2876)، و 121 (2896) (تحفة الأشراف: 266) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (210)

   سنن النسائى الصغرى2876أنس بن مالكخل عنه فلهو أسرع فيهم من نضح النبل
   سنن النسائى الصغرى2896أنس بن مالكخل عنه فوالذي نفسي بيده لكلامه أشد عليهم من وقع النبل
   جامع الترمذي2847أنس بن مالكخل عنه يا عمر فلهي أسرع فيهم من نضح النبل

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2847 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2847  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حافظ ابن حجرنے امام ترمذی کے اس قول پر نقد کیا ہے،
کہتے ہیں:
امام ترمذی کا یہ کہنا کہ عمرۃالقضا جنگ موتہ کے بعد ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2847   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2876  
´حرم میں شعر پڑھنے اور امام کے آگے چلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ قضاء میں مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ (کوئی مزاحمت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالو)، ورنہ آج ہم ان پر نازل شدہ حکم کے مطابق تمہیں ایسی مار ماریں گے جو سروں کو ان کی خوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2876]
اردو حاشہ:
(1) عمرۃ القضاء یہ 7 ہجری میں ادا کیا گیا۔ اسے عمرۃ القضاء اس لیے کہا گیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسے عمرے کا متفقہ طور پر فیصلہ ہوگیا تھا، اور مصالحت ہوگئی تھی کہ آئندہ سال مسلمان عمرہ کرنے آئیں گے اور تین دن تک مکہ مکرمہ میں بلا روک ٹوک رہیں گے، کفار مکہ شہر خالی کر دیں گے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ یہاں قضا ادا کے مقابلے میں نہیں کیونکہ اگر یہ عمرہ حدیبیہ کی قضا ہوتا تو پھر عمرہ حدیبیہ کو آپ کے عمروں میں شامل نہ کیا جاتا جبکہ اتفاق ہے کہ آپ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ ان میں سے ایک حدیبیہ والا عمرہ ہے۔
(2) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار صرف کفار قریش کوشرمندہ کرنے کے لیے تھے ورنہ نبیﷺ لڑائی کے لیے گئے تھے، نہ لڑائی ممکن ہی تھی۔ شعراء کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق ہوتا ہے اور عموماً شعراء کا کلام حقیقت پر محمول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد اپنے جذبات کو تسکین دینا ہوتا ہے۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی عام ہوتی ہے۔ اسی لیے کفار مکہ نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ورنہ سنجیدگی میں ایسے الفاظ صلح کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔
(3) حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کے آگے آگے چلنا آپ کے احترام کے لیے تھا۔ کبھی آگے چلنا بھی احترام کی علامت ہوتا ہے۔ خصوصاً خدام آگے ہی چلا کرتے ہیں۔
(4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن رواحہ پر اعتراض شاید اس بنا پر ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ رسول اللہﷺ شدت استغراق کی وجہ سے عبداللہ بن رواحہ کے اشعار کی طرف توجہ نہیں فرما رہے ورنہ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے باوجود اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2876   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2896  
´حاجی کے استقبال کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ قضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے اور ابن رواحہ آپ کے آگے تھے اور کہہ رہے تھے: «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تأويله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ، ۱؎ ان کے اشارے پر آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو تمہارے سروں کو گردنوں سے اڑا دے گی اور دوست کو اس کے دوست سے غافل کر دے گی، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن رواحہ رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2896]
اردو حاشہ:
(1) یہ حدیث اور اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر 2876۔
(2) امام نسائی رحمہ اللہ شاید اس حدیث کو استقبال کے باب میں اس لیے لائے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا آپ کے آگے آگے چلنا اور اشعار پڑھنا استقبال ہی کی ایک صورت ہے۔ یا ممکن ہے مکے کے لوگ آپ کے استقبال کو آئے ہوں جیسا کہ اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔
(3) آپ کا راستہ چھوڑ دو ویسے آپ تو اس وقت عمرے کی نیت سے گئے تھے۔ گویا استقبال کے لحاظ سے حج اور عمرہ برابر ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2896   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.