كتاب الأطعمة کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل 44. بَابُ: الْحُوَّارَى باب: میدہ کا بیان۔
ابوحازم کہتے ہیں کہ میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے میدہ دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک میدہ نہیں دیکھا تھا، تو میں نے پوچھا: کیا لوگوں کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چھلنیاں نہ تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے کوئی چھلنی نہیں دیکھی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، میں نے عرض کیا: آخر کیسے آپ لوگ بلا چھنا جو کھاتے تھے؟ فرمایا: ہاں! ہم اسے پھونک لیتے تو اس میں اڑنے کے لائق چیز اڑ جاتی اور جو باقی رہ جاتا اسے ہم گوندھ لیتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4731، ومصباح الزجاجة: 1151)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 22 (5410)، سنن الترمذی/الزہد 38 (2364)، مسند احمد (5/332، 6/71) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور گوندھ کر روٹی پکا لیتے، غرض رسول اکرم ﷺ کے وقت میں آٹا چھاننے کی اور میدہ کھانے کی رسم نہ تھی، یہ بعد کے زمانے کی ایجاد ہے، اور اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے، آٹا جب چھانا جائے، اور اس کا بھوسی بالکل نکل جائے، تو وہ ثقیل اور دیر ہضم ہو جاتا ہے، اور پیٹ میں سدہ اور قبض پیدا کرتا ہے، آخر یہ چھاننے والے لوگ اتنا غور نہیں کرتے کہ رب العالمین نے جو حکیم الحکماء ہے گیہوں میں بھوسی بیکار نہیں پیدا فرمائی، پس بہتر یہی ہے کہ بے چھنا ہوا آٹا کھائے، اور اگر چھانے بھی تو تھوڑی سی موٹی بھوسی نکال ڈالے لیکن میدہ کھانا بالکل خطرناک اور باعث امراض شدیدہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام ایمن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے آٹا چھانا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی روٹی بنائی، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ وہ کھانا ہے جو ہم اپنے علاقہ میں بناتے ہیں، میں نے چاہا کہ اس سے آپ کے لیے بھی روٹی تیار کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے (چھان کر نکالی گئی بھوسی) اس میں ڈال دو، پھر اسے گوندھو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18303، ومصباح الزجاجة: 1152) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ کی روٹی ایک آنکھ سے بھی نہیں دیکھی، یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1167) (ضعیف)» (سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
عطا کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کی زیارت کی یعنی راوی کا خیال ہے کہ ینانامی بستی میں تشریف لے گئے، وہ لوگ آپ کی خدمت میں پہلی بار کی پکی ہوئی چپاتیوں میں سے کچھ باریک چپاتیاں لے کر آئے، تو وہ رو پڑے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روٹی اپنی آنکھ سے کبھی نہیں دیکھی (چہ جائے کہ کھاتے) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14205، ومصباح الزجاجة: 1153) (ضعیف)» (ابن عطاء یہ عثمان بن عطاء ہیں اور ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے باریک روٹی نہیں دیکھی یعنی چپاتی کیونکہ یہ روٹی موٹے آٹے کی نہیں پک سکتی بلکہ اکثر میدے کی پکاتے ہیں، بلکہ آپ ہمیشہ موٹی روٹی وہ بھی اکثر جو کی کھایا کرتے، اور بے چھنے آٹے کی وہ بھی روز پیٹ بھر کر نہ ملتی تھی، ایک دن کھایا، تو ایک دن فاقہ «سبحان اللہ» ہمارے رسول ﷺ کا تو یہ حال تھا، اور ہم روز کیسے کیسے عمدہ کھانے خوش ذائقہ اور نئی ترکیب کے جن کو اگلے لوگوں نے نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا کھاتے ہیں، اور وہ بھی ناکوں ناک پیٹ بھر کر وہ بھی اسی طرح سے کہ حلال حرام کا کچھ خیال نہیں، مشتبہ کا تو کیا ذکر ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے (اسحاق کی روایت میں یہ اضافہ ہے: اس وقت ان کا نان بائی کھڑا ہوتا تھا، اور دارمی نے اس اضافے کے ساتھ روایت کی ہے کہ ان کا دستر خوان لگا ہوتا تھا یعنی تازہ روٹیوں کا کوئی اہتمام نہ ہوتا)، ایک دن انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: کھاؤ، مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی آنکھ سے باریک چپاتی دیکھی بھی ہو، یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے، اور نہ ہی آپ نے کبھی مسلّم بھنی بکری دیکھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 26 (5385)، (تحفة الأشراف: 1406)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/128، 134، 250) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|