كتاب الأطعمة کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل 19. بَابُ: إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ فَلْيُنَاوِلْهُ مِنْهُ باب: خادم کھانا لے کر آئے تو اس میں سے کچھ اسے بھی دینے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لے کر آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ خادم کو اپنے ساتھ بیٹھائے اور اس کے ساتھ کھائے، اور اگر اپنے ساتھ کھلانا پسند نہ کرے تو اسے چاہیئے کہ وہ کھانے میں سے اسے بھی دے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12935)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 55 (5460)، صحیح مسلم/الإیمان 10 (1663)، سنن الترمذی/الأطعمة 44 (1853)، سنن ابی داود/الأطعمة 51 (3846)، مسند احمد (2/316)، سنن الدارمی/الأطعمة 33 (2117) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ مروت اور احسان ہے اگرچہ اس خادم کے لئے کھانا مقرر نہ ہو، نقد ہو یا اس کا کھانا الگ ہو خادم سے عام مراد ہے لونڈی ہو یا غلام مزدور یا نوکر یا خدمت کرنے والا وغیرہ، سبحان اللہ، اسلام کے اور مسلمانوں کے مثل کس شریعت اور کس قوم میں اخلاق ہیں کہ مالک اور غلام دونوں ایک ساتھ مل کر کھائیں، اور دونوں ایک سا کپڑا پہنیں اگرچہ اب بعض مغرور متکبر مسلمان ان پر عمل نہ کرتے ہوں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کا غلام جب اس کے سامنے کھانا پیش کرے جس کو تیار کرنے میں اس نے اس کی طرف سے تکلیف اور گرمی برداشت کی ہے، تو اسے چاہیئے کہ اسے بھی بلائے تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ کھائے، اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کو چاہیئے کہ ایک لقمہ لے کر اس کے ہاتھ پر رکھ دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13642)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العتق 18 (2557)، صحیح مسلم/الأیمان 10 (1663)، سنن الترمذی/الأطعمة 44 (1853)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/245) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا غلام کھانا لے کر آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ غلام کو اپنے ساتھ بٹھائے، یا یہ کہ اس میں سے اسے بھی دے، اس لیے کہ وہی تو ہے جس نے اس کی گرمی اور اس کے دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9494، ومصباح الزجاجة: 1128)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 446) (حسن صحیح)» (سند میں ابراہیم بن مسلم الہجری ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 104- 1043)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|