تفرح أبواب الجمعة ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل 243. باب مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً باب: جس نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پائی اس نے جمعہ پا لیا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 29 (580)، صحیح مسلم/المساجد 30 (607)، سنن النسائی/المواقیت 30 (554)، (تحفة الأشراف: 15243)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/وقوت الصلاة 3 (15)، دی/الصلاة 22(1256، 1257) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سنن ابن ماجہ میں باب «ماجاء فیمن أدرک من الجمعۃ رکعۃ» کے تحت تین حدیثیں ہیں، پہلی بسند «ابن ابی ذئب عن الزہری عن ابی سلمہ وسعید بن المسیب عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم» کا لفظ یہ ہے: «من أدرك من الجمعة ركعة فليصل إليها أخرى» اور دوسری حدیث بطریق «ابن عیینہ عن الزہری عن ابی سلمۃ عن ابی ہریرۃعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم» مثل سیاق ابی داود مروی ہے، اورتیسری روایت بسند «یونس بن یزید الأیلی عن الزہری عن سالم عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم» ہے اور اس کا سیاق یہ ہے: «من أدرك ركعة من صلاة الجمعة أو غيرها فقد أدرك الصلاة» اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ایک رکعت سے کم پائے گا تو اس کی جمعہ کی نماز فوت ہو جائے گی، یعنی وہ جمعہ کے بدلے ظہر کی چار رکعتیں پڑھے گا، یہی جمہور کا مذہب ہے، اور ابوداود اور ابن ماجہ کی تبویب سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر پوری ایک رکعت نہ پائے، مثلاً: دوسری رکعت کے سجدے میں شریک ہو، یا قعدہ (تشہد) میں تو جمعہ نہیں ملا، اب وہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھے، بعض اہل علم کا یہی مذہب ہے، اور بعض کے نزدیک جمعہ میں شامل ہو نے والا اگر ایک رکعت سے کم پائے یعنی جیسے رکوع کے بعد سے سلام پھیرنے کے وقت کی مدت تو وہ جمعہ دو رکعت ادا کرے اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے: «ما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا» (کہ امام کے ساتھ جو ملے وہ پڑھو اور جو نہ ملے اس کو پوری کر لو) تو جمعہ میں شریک ہونے والا نماز جمعہ ہی پڑھے گا، اور یہ دو رکعت ہی ہے، امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے، اور اس کی تائید مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: تحفۃ الأحوذی علی سنن الترمذی حدیث رقم: ۵۲۴) قال الشيخ الألباني: صحيح
|