تفرح أبواب الجمعة ابواب: جمعہ المبارک کے احکام ومسائل 252. باب تَرْكِ الأَذَانِ فِي الْعِيدِ باب: عید میں اذان نہ دینے کا بیان۔
عبدالرحمٰن بن عابس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عید میں حاضر رہے ہیں؟ آپ نے کہا: ہاں اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک میری قدر و منزلت نہ ہوتی تو میں کمسنی کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہ ہو پاتا ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نشان کے پاس تشریف لائے جو کثیر بن صلت کے گھر کے پاس تھا تو آپ نے نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا اور اذان اور اقامت کا انہوں نے ذکر نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقے کا حکم دیا، تو عورتیں اپنے کانوں اور گلوں (یعنی بالیوں اور ہاروں) کی طرف اشارے کرنے لگیں، وہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا چنانچہ وہ ان کے پاس آئے پھر (صدقہ لے کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس لوٹ آئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 161 (863)، العیدین 16 (975)، 81 (977)، النکاح 125 (5249)، الاعتصام 125 (5249)، سنن النسائی/العیدین 18 (1576)، (تحفة الأشراف: 5816) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت کا شرف حاصل تھا اس لئے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع ملا ورنہ میری کمسنی کی وجہ سے لوگ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا نہ ہونے دیتے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی اور ابوبکر اور عمر یا عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی، یہ شک یحییٰ قطان کو ہوا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 8 (962)، 19 (978)، التفسیر 3 (4895)، صحیح مسلم/العیدین 8 (884)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 55 (1274)، (تحفة الأشراف: 5698) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دو بار نہیں (بارہا) عیدین کی نماز بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العیدین (887)، سنن الترمذی/الصلاة 267 (الجمعة 32) (532)، (تحفة الأشراف: 2166)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/94، 107) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|