كِتَاب الْإِمَارَةِ امور حکومت کا بیان The Book on Government 13. باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِيرِ الدُّعَاةِ إِلَى الْكُفْرِ: باب: فتنہ اور فساد کے وقت بلکہ ہر وقت مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا۔ Chapter: The obligation of staying with the Jama'ah (main body) of the muslims when Fitn (tribulations) appear, and in all circumstances. The prohibition of refusing to obey and on splitting away from the Jama'ah حدثني محمد بن المثنى ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر ، حدثني بسر بن عبيد الله الحضرمي ، انه سمع ابا إدريس الخولاني ، يقول: سمعت حذيفة بن اليمان ، يقول: " كان الناس يسالون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير، وكنت اساله عن الشر مخافة ان يدركني، فقلت: يا رسول الله، إنا كنا في جاهلية، وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير شر؟، قال: نعم، فقلت: هل بعد ذلك الشر من خير؟، قال: نعم وفيه دخن، قلت: وما دخنه؟، قال: قوم يستنون بغير سنتي، ويهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر، فقلت: هل بعد ذلك الخير من شر؟، قال: نعم دعاة على ابواب جهنم من اجابهم إليها قذفوه فيها، فقلت: يا رسول الله، صفهم لنا، قال: نعم، قوم من جلدتنا ويتكلمون بالسنتنا، قلت: يا رسول الله، فما ترى إن ادركني ذلك؟، قال: تلزم جماعة المسلمين وإمامهم، فقلت: فإن لم تكن لهم جماعة ولا إمام؟، قال: فاعتزل تلك الفرق كلها، ولو ان تعض على اصل شجرة حتى يدركك الموت وانت على ذلك ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ ، يَقُولُ: " كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟، قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟، قَالَ: نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: نَعَمْ، قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، فَقُلْتُ: فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟، قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ ". 4784. ابو ادریس خولانی نے کہا: میں نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر (اسلام) عطا کی، تو کیا اس خیر کے بعد پھر سے شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن اس (خیر) میں کچھ دھندلاہٹ ہو گی۔“ میں نے عرض کی: اس کی دھندلاہٹ کیا ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے بجائے دوسرا طرزِ عمل اختیار کریں گے اور میرے نمونہ عمل کے بجائے دوسرے طریقوں پر چلیں گے، تم ان میں اچھائی بھی دیکھو گے اور برائی بھی دیکھو گے۔“ میں نے عرض کی: کیا اس خیر کے بعد، پھر کوئی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے والے، جو ان کی بات مان لے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے سامنے ان کی (بری) صفات بیان کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہ لوگ بظاہر ہماری طرح کے ہوں گے اور ہماری ہی طرح گفتگو کریں گے۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر وہ زمانہ میری زندگی میں آ جائے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔“ میں نے عرض کی: اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان تمام فرقوں (بٹے ہوئے گروہوں) سے الگ رہنا، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ تمہیں موت آئے تو تم اسی حال میں ہو۔“ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے بارے میں اس خوف سے سوال کرتا تھا کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، تو میں نے آپ سے پوچھا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ ہمارے پاس (اسلام کی صورت میں) یہ خیر لے آیا، تو کیا اس خیر کے بعد شر (بے دینی) ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ تو میں نے پوچھا، کیا اس شر (بے دینی) کے بعد خیر ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں، اس میں کدورت ہو گی“ پھر میں نے پوچھا: اس میں کدورت کیا ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت (طریقہ) کے سوا راہ اختیار کریں گے اور میری سیرت کے سوا طرز عمل اپنائیں گے، ان میں معروف و منکر دونوں پاؤ گے۔“ میں نے پوچھا، کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے جو ان کی اس دعوت کو قبول کر لیں گے تو وہ انہیں اس جہنم میں پھینک دیں گے۔“ تو میں نے کہا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ان کی صفت بتائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری بولی بولیں گے۔“ میں نے کہا، یا رسول اللہ! اگر یہ دور مجھے پا لے تو آپ کے خیال میں میں کیا کروں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو مسلمانوں کی جمعیت اور ان کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔“ میں نے عرض کیا، اگر ان کی جمعیت اور امام نہ ہو؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تمام فرقوں سے الگ رہو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کے تنے کو چبانا پڑے، حتیٰ کہ تمہیں موت آئے اور تم اسی حالت پر ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4785. ابوسلام سے روایت ہے، کہا: حضرت حذیفہ بن یمان نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم شر میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر عطا فرمائی، ہم اس خیر کی حالت میں ہیں، کیا اس خیر کے پیچھے شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کی: کیا اس شر کے پیچھے خیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے پیچھے پھر شر ہو گا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا: وہ کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے امام (حکمران اور رہنما) ہوں گے جو زندگی گزارنے کے میرے طریقے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے اور جلد ہی ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کی وضع قطع انسانی ہو گی، دل شیطانوں کے دل ہوں گے۔“ (حضرت حذیفہ ؓ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں وہ زمانہ پاؤں (تو کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا۔“ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! ہم شر میں مبتلا تھے، تو اللہ خیر لے آیا اور ہم اس سے وابستہ ہیں، تو کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا، کیا اس شر کے بعد بھی خیر کا دور ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے دریافت کیا، کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا، کیا کیفیت ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے امام ہوں گے، جو میری ہدایت سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، اور نہ میرا طریقہ اپنائیں گے اور ان میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے دل ہوں گے اور بدن انسانوں کے ہوں گے۔“ میں نے پوچھا، اگر میں ان کو پا لوں، تو اے اللہ کے رسول! میں کیا کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سننا اور امیر کی اطاعت کرنا، اگرچہ تیری پشت پر مار پڑے اور تیرا مال چھین لیا جائے، سن اور مان۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا جرير يعني ابن حازم ، حدثنا غيلان بن جرير ، عن ابي قيس بن رياح ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من خرج من الطاعة وفارق الجماعة فمات مات ميتة جاهلية، ومن قاتل تحت راية عمية يغضب لعصبة او يدعو إلى عصبة او ينصر عصبة فقتل فقتلة جاهلية، ومن خرج على امتي يضرب برها وفاجرها ولا يتحاشى من مؤمنها، ولا يفي لذي عهد عهده فليس مني ولست منه "،حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي قَيْسِ بْنِ رِيَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ أَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً فَقُتِلَ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ، وَمَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِي يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا وَلَا يَتَحَاشَى مِنْ مُؤْمِنِهَا، وَلَا يَفِي لِذِي عَهْدٍ عَهْدَهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ "، 4786. جریر بن حازم نے کہا: ہمیں غیلان بن جریر نے ابوقیس بن ریاح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (امامِ وقت کی) اطاعت سے نکل گیا اور جماعت چھوڑ دی اور مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے کے نیچے لڑا، اپنی عصبیت (قوم، قبیلے) کی خاطر غصے میں آیا یا اس نے کسی عصبیت کی طرف دعوت دی یا کسی عصبیت کی خاطر مارا گیا تو (یہ) جاہلیت کی موت ہو گی اور جس نے میری امت کے اچھوں اور بروں (دونوں) کو مارتے ہوئے ان کے خلاف خروج (بغاوت کا رستہ اختیار) کیا، کسی مومن کا لحاظ کیا نہ کسی معاہد کے عہد کا پاس کیا تو نہ اس کا میرے ساتھ کوئی رشتہ ہے، نہ میرا اس سے کوئی رشتہ ہے۔“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (حاکم) کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے الگ ہو گیا اور اسی حالت پر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو اندھیرے میں کسی جھنڈے تلے لڑا، محض عصبیت کی بنا پر غضبناک ہوتا ہے، یا عصبیت کی دعوت دیتا ہے یا عصبیت کی بنا پر مدد کرتا ہے اور قتل کر دیا جاتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جو میری امت کے خلاف نکلتا ہے، نیک اور بد ہر ایک کو مارتا ہے اور مومن سے بھی احتراز نہیں کرتا اور نہ کسی سے کیا ہوا عہد پورا کرتا ہے تو اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور میں اس سے بری ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4787. ایوب نے غیلان بن جریر سے، انہوں نے زیاد بن ریاح قیسی سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس طرح جریر کی حدیث ہے، البتہ انہوں نے لا يتحاشى من مومنها کہا۔ (معنی ”کنارے پر نہیں رہتا، لحاظ نہیں کرتا“ ہی کے ہیں۔) امام صاحب ایک اور استاد کی سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں اس میں لا يتحاش
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4788. مہدی بن میمون نے ہمیں غیلان بن جریر سے حدیث بیان کی، انہوں نے زیاد بن رباح سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (مسلمان کے امیر کی) اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہو گیا، پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے تلے مارا گیا، عصبیت کے لیے غضب ناک ہوتا رہا اور عصبیت کے لیے لڑتا رہا، وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔ اور میری امت میں سے جس شخص نے میری امت کے خلاف خروج کیا، نیک اور بد ہر شخص کو مارتا رہا، نہ مومن کا لحاظ کیا، جس کے ساتھ اس (اطاعت کے) عہد جیسا عہد کیا اس کے ساتھ وفا نہ کی تو وہ مجھ سے (میرے ساتھ تعلق رکھنے والوں میں سے) نہیں۔“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو امام کی اطاعت نہیں کرتا، (اور یہاں تک) جماعت سے جدا ہو جاتا ہے، پھر مر جاتا ہے، تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جو اندھے جھنڈے تلے قتل کر دیا جاتا ہے، عصبیت کی خاطر غصہ میں آتا ہے اور عصبیت کی بنا پر جنگ کرتا ہے تو اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور میری امت کا جو شخص میری امت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اور اس کے نیک و بد ہر ایک کو قتل کرتا ہے، امت کے مومن فرد سے بھی پرہیز نہیں کرتا اور جس سے عہد کیا ہے اس کو بھی پورا نہیں کرتا تو وہ مجھ سے نہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4789. محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے غیلان بن جریر سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ ابن مثنیٰ نے اپنی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اور ابن بشار نے اپنی روایت میں دوسروں کی روایت کی طرح کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ امام صاحب اپنے دو اساتذہ ابن مثنیٰ اور ابن بشار سے روایت کرتے ہیں، ابن المثنیٰ کی روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں ہے، لیکن ابن بشار نے دوسروں کی طرح کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4790. حماد بن زید نے ہمیں جعد ابوعثمان سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو رجاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہ حدیث روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے امیر میں ایسی بات دیکھے جو اسے ناپسند ہے تو صبر کرے، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹا اور (اسی حالت میں) مر گیا تو یہ جاہلیت کی موت ہے۔“ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناگوار چیز دیکھتا ہے وہ صبر سے کام لے (بغاوت نہ کرے) کیونکہ جو شخص ایک بالشت بھر جماعت سے الگ ہوتا ہے اور مر جاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کے انداز کی ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4791. عبدالوارث نے ہمیں جعد سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو رجاء عطاردی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو اپنے امیر کی کوئی بات بری لگے، وہ اس پر صبر کرے، کیونکہ لوگوں میں سے جو شخص بھی سلطان (کی اطاعت) سے ایک بالشت بھی باہر نکلا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔“ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے امیر کی کسی بات کو ناپسند کیا، وہ اس (ناگواری) کو برداشت کرے، (اطاعت نہ چھوڑے) کیونکہ جو انسان بھی سلطان (اقتدار و حکومت) سے ایک بالشت بھر نکلتا ہے اور اسی حالت میں مر جاتا ہے، تو وہ جاہلیت کے دور کی موت مرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4792. حضرت جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اندھے (قومی، نسلی، لسانی) تعصب کے کسی جھنڈے کے نیچے لڑا، عصبیت کی پکار لگاتے ہوئے، یا عصبیت (والوں) کی حمایت کرتے ہوئے تو (یہ) جاہلیت کی موت ہو گی۔“ حضرت جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اندھے جھنڈے تلے قتل کر دیا جاتا ہے، تعصب کی دعوت دیتا ہے، یا تعصب کی بنا پر مدد کرتا ہے، تو اس کی موت جاہلیت کے زمانہ کی موت ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا عاصم وهو ابن محمد بن زيد ، عن زيد بن محمد ، عن نافع ، قال: " جاء عبد الله بن عمر إلى عبد الله بن مطيع، حين كان من امر الحرة ما كان زمن يزيد بن معاوية، فقال: اطرحوا لابي عبد الرحمن وسادة، فقال: إني لم آتك لاجلس اتيتك لاحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقوله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية "،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: " جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ، حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً "، 4793. زید بن محمد نے نافع سے روایت کی، انہوں نے کہا: یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں جب حَرہ کے واقعے میں جو ہوا سو ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس گئے، اس نے کہا: ابو عبدالرحمٰن! (حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی کنیت) کے لیے گدا بچھاؤ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: میں اس لیے تمہارے پاس نہیں آیا، میں تمہارے پاس (صرف) اس لیے آیا ہوں کہ تم کو ایک حدیث سناؤں جو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے (مسلمانوں کے حکمران کی) اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں حاضر ہو گا کہ اس کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی (مسلمان حکمران) کی بیعت نہیں تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“ نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما، یزید بن معاویہ کے دور میں، جب حرہ کا واقعہ پیش آیا، جیسے بھی ہوا، عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے، تو اس نے کہا، ابو عبدالرحمٰن کے لیے تکیہ رکھو، تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، میں تیرے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا، میں تو تمہیں وہ حدیث سنانے آیا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے اطاعت سے ہاتھ نکالا، وہ قیامت کے دن اللہ کو اس حال میں ملے گا، کہ اس کے پاس (عذر کے لیے) کوئی دلیل نہیں ہو گی اور جو اس حال میں مرے گا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہیں ہو گی، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4794. بکیر بن عبداللہ بن اشج نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ وہ ابن مطیع کے پاس گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح حدیث روایت کی۔ امام صاحب یہ حدیث اپنے ایک اور استاد کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
4795. زید کے والد اسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی جو نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی۔ امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سندوں سے مذکورہ روایت کے ہم معنی حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ہی سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|