كِتَاب الْإِمَارَةِ امور حکومت کا بیان The Book on Government 16. باب وُجُوبِ الإِنْكَارِ عَلَى الأُمَرَاءِ فِيمَا يُخَالِفُ الشَّرْعَ وَتَرْكِ قِتَالِهِمْ مَا صَلَّوْا وَنَحْوِ ذَلِكَ: باب: اگر امیر شرع کے خلاف کوئی کام کرے تو اس کو برا جاننا چاہیئے۔ Chapter: The obligation to denounce rulers for that in which they go against Shari'ah, but they should not be fought so long as they pray regularly, etc ہمام بن یحییٰ نے کہا: ہمیں قتادہ نے حسن سے حدیث بیان کی، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انہیں (کچھ کاموں میں) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں) نیک کام کیے وہ بَری ٹھہرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور (ان کی) پیروی کی (وہ بَری ہوا نہ بچ سکا۔) " صحابہ نے عرض کی: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقینا ایسے حکمران ہوں گے، وہ معروف اور منکر، اچھے برے دونوں قسم کے کام کریں گے، جس نے (اچھے برے کی) شناخت کر لی، وہ بری ہو گیا اور جس نے منکر کا انکار کیا، وہ (گناہ سے) سلامت رہا، لیکن جس نے برے کاموں پر رضا مندی کا اظہار کیا اور ان کی پیروی کی (وہ سلامت نہ رہا)“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا، کیا ہم ان سے جنگ نہ لڑیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہشام دستوائی نے قتادہ سے روایت کی، کہا: ہمیں حسن نے ضبہ بن محصب عنزی سے حدیث بیان کی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "تم پر ایسے امیر لگائے جائیں گے جن میں تم اچھائیاں بھی دیکھو گے اور برائیاں بھی، جس نے (برے کاموں کو) ناپسند کیا، وہ بری ہو گیا، جس نے انکار کیا وہ بچ گیا، مگر جس نے پسند کیا اور پیچھے لگا (وہ بری ہوا نہ بچ سکا۔) " صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں، آپ نے فرمایا: "نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا جس نے دل سے ناپسند کیا اور دل سے برا جانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واقعہ یہ ہے، تم پر ایسے حکمران مقرر کیے جائیں گے، ان کی کچھ باتوں کو تم اچھا سمجھو گے اور کچھ کو برا خیال کرو گے، تو جس نے ان کی بری باتوں کو ناپسند سمجھا تو وہ (مؤاخذہ سے) بری ہو گیا اور جس نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا، وہ (گناہ سے) سلامت رہا، لیکن جو ان پر راضی ہو گیا اور ان کو مانا (وہ بری اور سلامت نہ رہا)“ صحابہ کرام نے پوچھا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم ان سے جنگ نہ لڑیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔“ برا جاننے سے مراد دل سے برا جاننا ہے اور انکار سے مراد دل سے انکار ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ماد بن زید نے کہا: ہمیں معلیٰ بن زیاد اور ہشام نے حسن سے حدیث بیان کی، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سابقہ حدیث کی طرح، البتہ اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں: "جس نے انکار کیا، وہ بری ہو گیا اور جس نے ناپسند کیا، وہ بچ گیا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آگے مذکورہ روایت اس فرق کے ساتھ ہے، اس میں ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے انکار کیا، وہ بری ہو گیا اور جس نے مکروہ جانا سلامت رہا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن مبارک نے ہشام سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے ضبہ بن محصن سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر اسی کے مانند بیان کیا، سوائے ان الفاظ کے: "جس نے پسند کیا اور پیچھے لگا" یہ الفاظ بیان نہیں کیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے، مگر اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں، (لیکن جو راضی ہو گیا اور پیروی کی)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|