حدثنا سعيد بن عمرو الاشعثي ، وسويد بن سعيد ، واللفظ لسعيد، اخبرنا سفيان ، عن عمرو ، سمع جابرا ، يقول: قال رجل: اين انا يا رسول الله إن قتلت؟، قال: " في الجنة "، فالقى تمرات كن في يده ثم قاتل حتى قتل "، وفي حديث سويد، قال رجل: للنبي صلى الله عليه وسلم يوم احد.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَاللَّفْظُ لِسَعِيد، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ جَابِرًا ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: أَيْنَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ قُتِلْتُ؟، قَالَ: " فِي الْجَنَّةِ "، فَأَلْقَى تَمَرَاتٍ كُنَّ فِي يَدِهِ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّى قُتِلُ "، وَفِي حَدِيثِ سُوَيْدٍ، قَالَ رَجُلٌ: لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ.
سعید بن عمرو اشعثی اور سعید بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی:۔۔ الفاظ سعید کے ہیں۔۔ کہا: ہمیں سفیان نے عمرو سے خبر دی: انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں (اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے) شہید کر دیا جاؤں تو میں کہاں ہوں گا؟ فرمایا: "جنت میں۔" اس شخص کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں اس نے ان کو پھینکا، پھر لڑا حتی کہ شہید ہو گیا۔ اور سوید کی روایت میں یہ ہے: ایک شخص نے اُحد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ایک آدمی نے پوچھا، میں کہاں ہوں گا؟ اے اللہ کے رسول! اگر میں قتل کر دیا جاؤں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں۔“ تو اس کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں، وہ اس نے پھینک دیں، پھر جنگ لڑی حتیٰ کہ وہ شہید ہو گیا، سوید کی روایت میں ہے، ایک آدمی نے غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص بنی نبیت کا (جو انصار کا ایک قبیلہ ہے) آیا اور کہنے لگا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے پیغام پہنچانے والے ہیں، پھر آگے بڑھا اور لڑتا رہا یہاں تک کہ مارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس نے عمل تھوڑا کیا پر ثواب بہت پایا۔“
حدثنا ابو بكر بن النضر بن ابي النضر ، وهارون بن عبد الله ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، والفاظهم متقاربة، قالوا: حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا سليمان وهو ابن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بسيسة عينا ينظر ما صنعت عير ابي سفيان، فجاء وما في البيت احد غيري وغير رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا ادري ما استثنى بعض نسائه، قال: فحدثه الحديث، قال: فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتكلم فقال: " إن لنا طلبة فمن كان ظهره حاضرا، فليركب معنا "، فجعل رجال يستاذنونه في ظهرانهم في عل والمدينة، فقال: " لا، إلا من كان ظهره حاضرا "، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه حتى سبقوا المشركين إلى بدر، وجاء المشركون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يقدمن احد منكم إلى شيء حتى اكون انا دونه "، فدنا المشركون، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قوموا إلى جنة عرضها السموات والارض "، قال: يقول عمير بن الحمام الانصاري: يا رسول الله، جنة عرضها السموات والارض؟، قال: نعم، قال: بخ بخ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما يحملك على قولك بخ بخ؟، قال: لا والله يا رسول الله إلا رجاءة ان اكون من اهلها، قال: " فإنك من اهلها "، فاخرج تمرات من قرنه فجعل ياكل منهن، ثم قال: لئن انا حييت حتى آكل تمراتي هذه إنها لحياة طويلة، قال: فرمى بما كان معه من التمر ثم قاتلهم حتى قتل.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَال: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُسَيْسَةَ عَيْنًا يَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِيرُ أَبِي سُفْيَانَ، فَجَاءَ وَمَا فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا أَدْرِي مَا اسْتَثْنَى بَعْضَ نِسَائِهِ، قَالَ: فَحَدَّثَهُ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ فَقَالَ: " إِنَّ لَنَا طَلِبَةً فَمَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا، فَلْيَرْكَبْ مَعَنَا "، فَجَعَلَ رِجَالٌ يَسْتَأْذِنُونَهُ فِي ظُهْرَانِهِمْ فِي عُلْ وَالْمَدِينَةِ، فَقَالَ: " لَا، إِلَّا مَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا "، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى سَبَقُوا الْمُشْرِكِينَ إِلَى بَدْرٍ، وَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُقَدِّمَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَى شَيْءٍ حَتَّى أَكُونَ أَنَا دُونَهُ "، فَدَنَا الْمُشْرِكُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ "، قَالَ: يَقُولُ عُمَيْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: بَخٍ بَخٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ؟، قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ: " فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا "، فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِهِ فَجَعَلَ يَأْكُلُ مِنْهُنَّ، ثُمَّ قَالَ: لَئِنْ أَنَا حَيِيتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ: فَرَمَى بِمَا كَانَ مَعَهُ مِنَ التَّمْرِ ثُمَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ.
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی خبر لانے کے لئے بُسیسہ (خزرجی انصاری) رضی اللہ عنہ کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ دیکھے ابوسفیان کے (تجارتی) قافلے کی کیا صورتِ حال ہے۔ جس وقت وہ واپس آیا تو گھر میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں تھا،۔۔ (ثابت نے) کہا: مجھے انس رضی اللہ عنہ کا کسی ام المومنین کو مستثنیٰ کرنا معلوم نہیں۔۔ کہا: اس نے آ کر آپ کو ساری بات بتائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: "ہمیں کچھ (کرنا) مطلوب ہے، سو جس کے پاس سواری موجود ہو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو کر چلے۔" کچھ لوگ بالائی مدینہ میں (موجود) اپنی سواریاں لانے کی اجازت طلب کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا: "نہیں، صرف وہی لوگ (ساتھ چلیں) جن کی سواریاں یہیں موجود ہوں۔" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب چل پڑے اور مشرکین سے پہلے "بدر" پہنچ گئے، مشرکین بھی آ پہنچے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی شخص، جب تک میں اس کے پیچھے نہ ہوں، کسی چیز پر پیش قدمی نہ کرے۔" مشرکین قریب آ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس جنت کی طرف بڑھ جس کی چوڑائی آسمان اور زمین ہیں۔" کہا: (یہ سن کر) حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! جنت جس کا عرض آسمان اور زمین ہے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں۔" اس نے کہا: واہ واہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے یہ واہ واہ کس وجہ سے کہا؟" اس نے کہا: اللہ کے رسول! اس امید کے سوا اور کسی وجہ سے نہیں (کہا) کہ میں (بھی) جنت والوں میں سے ہو جاؤں، آپ نے فرمایا: "بلاشبہ تم اہل جنت میں سے ہو۔" حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکال کر کھانی شروع کیں، پھر کہنے لگے: اگر میں اپنی ان کھجوروں کو کھا لینے تک زندہ رہا تو پھر یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی (یعنی جنت ملنے میں دیر ہو جائے گی)، پھر انہوں نے، جو کھجوریں ان کے پاس تھیں، پھینکیں اور لڑائی شروع کر دی یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بسیسہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جاسوس بنا کر روانہ فرمایا تاکہ وہ ابوسفیان کے قافلہ کے حالات کا جائزہ لے، وہ واپس آیا تو میرے سوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا گھر میں کوئی نہ تھا، ثابت کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے ازواج مطہرات میں سے کسی کو مستثنیٰ کیا تھا، اس نے آپ کو واقعہ سنایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور خطاب فرمایا، اس میں کہا، ”ہمیں ایک مطلوب ہے، تو جس کی سواری گھر میں ہے وہ ہمارے ساتھ سوار ہو جائے“ تو کچھ لوگ آپ سے ان سواریوں کے بارے میں اجازت مانگنے لگے، جو مدینہ کے بالائی علاقہ میں تھیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہی لوگ نکلیں جن کی سواریاں موجود ہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہو گئے، حتی کہ مشرکوں سے بدر میں پہلے پہنچ گئے اور مشرک بھی آ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نہ بڑھے، حتیٰ کہ میں آگے ہوں“ مشرکین قریب آ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس جنت کی طرف اٹھو، جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے۔“ عمیر بن حمام انصاری نے کہا، اے اللہ کے رسول! جنت جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ اس نے کہا، واہ، واہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تم واہ، واہ کلمہ تحسین کیوں کہہ رہے ہو؟“ اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اس امید پر کہ میں بھی اس کے باشندوں میں داخل ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اہل جنت میں سے ہے۔“ تو اس نے اپنے ترکش سے چند کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگا، پھر کہا، اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہا تو یہ تو بہت طویل زندگی ہو گی اور وہ کھجوریں جو اس کے پاس تھیں، پھینک دیں، اور دشمن سے لڑنے لگا، حتیٰ کہ قتل کر دیا گیا۔
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي، وقتيبة بن سعيد، واللفظ ليحيى، قال قتيبة : حدثنا، وقال يحيى : اخبرنا جعفر بن سليمان ، عن ابي عمران الجوني ، عن ابي بكر بن عبد الله بن قيس ، عن ابيه ، قال: سمعت ابي وهو بحضرة العدو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن ابواب الجنة تحت ظلال السيوف "، فقام رجل رث الهيئة، فقال: يا ابا موسى آنت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول هذا؟، قال: نعم، قال: فرجع إلى اصحابه، فقال: اقرا عليكم السلام، ثم كسر جفن سيفه فالقاه ثم مشى بسيفه إلى العدو فضرب به حتى قتل.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ قُتَيْبَةُ : حَدَّثَنَا، وقَالَ يَحْيَى : أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي وَهُوَ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ "، فَقَامَ رَجُلٌ رَثُّ الْهَيْئَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا مُوسَى آنْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلَامَ، ثُمَّ كَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَأَلْقَاهُ ثُمَّ مَشَى بِسَيْفِهِ إِلَى الْعَدُوِّ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ.
ابوبکر بن عبداللہ بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے اپنے والد (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نے اپنے والد سے، جب وہ دشمن کا سامنا کر رہے تھے، سنا: وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے (ہوتے) ہیں۔" یہ سن کر ایک خستہ حال شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ابوموسیٰ! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود یہ فرماتے ہوئے سنا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ یہ سن کر وہ شخص واپس اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں تمہیں (الوداعی) سلام کہتا ہوں، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ کر پھینک دی اور تلوار لے کر بڑھا، اس سے شمشیر زنی کی یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا۔
ابوبکر بن عبداللہ بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ سے دشمن کے سامنے یہ کہتے ہوئے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ جنت کے دروازے تلواروں کے سایہ تلے ہیں۔“ تو ایک پراگندہ حالت آدمی کھڑا ہو کر پوچھنے لگا، اے ابو موسیٰ (عبداللہ بن قیس کی کنیت ہے) کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں، تو وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آ کر کہنے لگا، میں تمہیں سلام پیش کرتا ہوں پھر اپنی تلوار کی میان توڑ کر پھینک دی، پھر اپنی تلوار لے کر دشمن کی طرف چل پڑا، اور اس سے ضرب لگائی حتیٰ کہ قتل کر دیا گیا۔
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو (ہمیں) قرآن اور سنت کی تعلیم دیں۔ آپ نے ان کے ساتھ ستر انصاری بھیج دیے جنہیں قراء کہا جاتا تھا، ان میں میرے ماموں حضرت حرام (بن ملحان رضی اللہ عنہ) بھی تھے، یہ لوگ رات کے وقت قرآن پڑھتے تھے، ایک دوسرے کو سناتے تھے، قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے، اور دن کو مسجد میں پانی لا کر رکھتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں لا کر فروخت کرتے اور اس سے اصحاب صفہ اور فقراء کے لیے کھانا خریدتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان (آنے والے کافروں) کی طرف بھیجا اور انہوں نے منزل پر پہنچنے سے پہلے (راستے ہی میں دھوکے سے) ان پر حملہ کر دیا اور انہیں شہید کر دیا، اس وقت انہوں نے کہا: اے اللہ! ہماری طرف سے ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہماری تجھ سے ملاقات ہو گئی ہے، ہم تجھ سے راضی ہو گئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے۔ اس سانحے میں ایک شخص نے پیچھے سے آ کر انس رضی اللہ عنہ کے ماموں، حرام (بن ملحان) رضی اللہ عنہ کو اس طرح نیزہ مارا کہ وہ آر پار ہو گیا تو انہوں نے کہا: رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: "تمہارے بھائی شہید کر دیے گئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے: "اے اللہ! ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم نے تجھ سے ملاقات کر لی ہے، ہم تجھ سے راضی ہو گئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگے، آپ ہمارے ساتھی کچھ آدمی روانہ فرمائیں، جو ہمیں قرآن و سنت کی تعلیم دیں، تو آپ نے ان کی طرف ستر (70) انصاری آدمی روانہ فرمائے، جنہیں قراء (قرآن پڑھانے والے) کہا جاتا تھا، ان میں میرے ماموں حرام رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے، یہ لوگ قرآن مجید پرھتے تھے اور رات کو قرآن مجید پڑھتے پرھاتے اور سیکھتے اور دن کو پانی لا کر مسجد میں (لوگوں کے استعمال کے لیے) رکھتے اور لکڑیاں کاٹ کر انہیں بیچتے اور اس رقم سے اہل صفہ اور محتاجوں کے لیے خوراک خریدتے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ان کی قوم کی طرف) بھیج دیا، دشمن ان کے سامنے آیا اور انہی مقررہ جگہ تک پہنچنے سے پہلے قتل کر ڈالا، تو انہوں نے دعا کی، اے اللہ! ہماری طرف سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام پہنچا دے، کہ ہم تجھے مل چکے ہیں، ہم تجھ سے راضی ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے ماموں حرام رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے سے ایک آدمی آیا اور انہیں اس طرح نیزہ مارا کہ وہ پار ہو گیا، تو حضرت حرام ؓ نے کہا، رب کعبہ کی قسم! میں نے منزل کو پا لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو بتایا، ”تمہارے بھائی شہید کر دئیے گئے ہیں اور انہوں نے دعا کی ہے، اے اللہ! ہماری طرف سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام پہنچا دے کہ ہم تجھے مل چکے ہیں اور تجھ سے راضی ہو گئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے۔“
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، قال: قال انس : " عمي الذي سميت به لم يشهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بدرا، قال: فشق عليه، قال: اول مشهد شهده رسول الله صلى الله عليه وسلم: غيبت عنه وإن اراني الله مشهدا فيما بعد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليراني الله ما اصنع، قال: فهاب ان يقول غيرها، قال: فشهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد، قال: فاستقبل سعد بن معاذ، فقال له انس: يا ابا عمر واين؟، فقال: واها لريح الجنة اجده دون احد، قال: فقاتلهم حتى قتل، قال: فوجد في جسده بضع وثمانون من بين ضربة وطعنة ورمية، قال: فقالت اخته عمتي الربيع بنت النضر: " فما عرفت اخي إلا ببنانه، ونزلت هذه الآية رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا سورة الاحزاب آية 23، قال: فكانوا يرون انها نزلت فيه وفي اصحابه ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ : " عَمِّيَ الَّذِي سُمِّيتُ بِهِ لَمْ يَشْهَدْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا، قَالَ: فَشَقَّ عَلَيْهِ، قَالَ: أَوَّلُ مَشْهَدٍ شَهِدَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غُيِّبْتُ عَنْهُ وَإِنْ أَرَانِيَ اللَّهُ مَشْهَدًا فِيمَا بَعْدُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَانِي اللَّهُ مَا أَصْنَعُ، قَالَ: فَهَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَهَا، قَالَ: فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ لَهُ أَنَسٌ: يَا أَبَا عَمْرٍ وَأَيْنَ؟، فَقَالَ: وَاهًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُهُ دُونَ أُحُدٍ، قَالَ: فَقَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ، قَالَ: فَوُجِدَ فِي جَسَدِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ، قَالَ: فَقَالَتْ أُخْتُهُ عَمَّتِيَ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ: " فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلَّا بِبَنَانِهِ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلا سورة الأحزاب آية 23، قَالَ: فَكَانُوا يُرَوْنَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے چچا جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں حاضر نہیں ہو سکے تھے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزری تھی۔ انہوں نے کہا: یہ پہلا معرکہ تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے اور میں اس سے غیر حاضر رہا، اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کوئی معرکہ مجھے دکھایا تو اللہ مجھے بھی دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ وہ ان کلمات کے علاوہ کوئی اور بات کہنے سے ڈرے (دل میں بہت کچھ کر گزرنے کا عزم تھا لیکن اس فقرے سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔)، پھر وہ غزوہ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، کہا: پھر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آئے تو (میرے چچا) انس (بن نضر) رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوعمرو! کدھر؟ (پھر کہا:) جنت کی خوشبو کیسی عجیب ہے! جو مجھے کوہِ احد کے پیچھے سے آ رہی ہے، پھر وہ کافروں سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ ان کے جسم پر تلوار، نیزے اور تیروں کے اَسی سے اوپر زخم پائے گئے۔ ان کی بہن، میری پھوپھی، ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنے بھائی (کی لاش) کو صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچانا تھا، (اسی موقع پر) یہ آیت نازل ہوئی: " (مومنوں میں سے) کتنے مرد ہیں کہ جس (قول) پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا، اسے سچ کر دکھایا، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر دیا، اور ان میں سے کوئی ایسے ہیں جو منتظر ہیں، وہ ذرہ برابر تبدیل نہیں ہوئے (اپنے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد پر قائم ہیں۔) " صحابہ کرام کا خیال یہ تھا کہ یہ آیت حضرت انس (بن نضر) رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا وہ چچا جس کے نام پر میرا نام رکھا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکا اور یہ چیز اس کے لیے بہت ناگواری کا باعث بنی، کہ پہلا معرکہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے، میں اس سے غیر حاضر رہا، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد مجھے کوئی معرکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں دکھایا، تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا میں کیا معرکہ سر انجام دیتا ہوں، اس کے سوا وہ کچھ کہنے سے خوف زدہ ہوئے، پھر وہ جنگ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، اس کے سامنے سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا، اے ابو عمرو! کدھر جا رہے ہو؟ پھر کہا حسرت ہے (تم پر) میں اُحد کے پیچھے سے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں اور دشمن سے ٹکرا گئے، حتیٰ کہ قتل کر دئیے گئے، تو ان کے جسم پر تلوار، نیزہ اور تیر کے اسی (80) سے زائد زخم پائے گئے۔ تو ان کی بہن اور میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے بتایا، میں نے اپنے بھائی کو صرف ان کے پوروں سے شناخت کیا اور ان کے حق میں یہ آیت اتری ”ان میں سے کچھ ایسے مردان میدان ہیں، جنہوں نے اللہ سے اپنے کئے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا، تو ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نذر پوری کر ڈالی اور ان میں سے بعض اس کے منتظر ہیں اور انہوں نے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی“