محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں یعنی زہری مذکورہ با لا حدیث انھوں نے اپنی حدیث میں کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور کندھے کے در میان اپنا ہا تھ مارا اور فرمایا: " جنگ کر رہے ہو؟ اے سعد!میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔۔۔ (آگے اسی طرح ہے جس طرح پہلی روایت میں ہے)
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے محمد بن سعد کی یہ روایت بیان کرتے ہیں اس میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور کندھے کے درمیان مارا پھر فرمایا: (اے سعد! کیا لڑائی چاہتے ہو؟ میں ایک ایسے آدمی کو دیتا ہوں۔)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2435
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) ایمان کا تعلق قلب و دل سے ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں انسان یقین اور قطعیت سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے جس کا انسان مشاہدہ کرتا ہے۔ اس لیے اس کی اطاعت کیشی اور فرمانبرداری کا ظاہری اعمال کے لحاظ سے اظہار نہ کرو۔ لیکن حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس نظریہ کا غلبہ تھا کہ عطیہ میں ان لوگوں کا حق مقدم ہے جو ایمان وایقان میں برتر ہیں اس لیے وہ آپﷺ کا مقصد نہیں سمجھ سکے اور اپنے لفظ ہی کا تکرار کرتے رہے۔ (2) بعض لوگ نئے نئے مسلمان ہوتے ہیں اور اسلام کی حقیقت ان کے دل میں رچی بسی نہیں ہوتی وہ یہی سمجھتے ہیں اسلام لانے سے ہم دنیوی مال و دولت حاصل کر سکیں گے۔ اس لیے ان کی تالیف قلبی کے لیے جب تک ان کی حقیقت اسلام تک رسائی نہ ہو کچھ نہ کچھ دینا مناسب ہوتا ہے۔ اور جن کے دل میں ایمان و عقیدہ راسخ ہو جاتا ہے وہ دنیوی مال و دولت کوکوئی اہم حیثیت نہیں دیتے کہ اس سے محرومی کی صورت میں ان کے ایمان و یقین میں ضعف پیدا ہو جائے یا وہ نعوذ باللہ دین سے برگشتہ ہو کر آگ کا ایندھن بنیں اس لیے ان کو اپنا سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے کیونکہ ان کے بارے میں بد عقیدگی یا بدظنی کا خطرہ ہوتا۔