وحدثنا شيبان ابن فروخ ، حدثنا ابو الاشهب ، حدثنا خليد العصري ، عن الاحنف بن قيس ، قال: كنت في نفر من قريش، فمر ابو ذر وهو يقول: " بشر الكانزين بكي في ظهورهم، يخرج من جنوبهم، وبكي من قبل اقفائهم، يخرج من جباههم "، قال: ثم تنحى، فقعد، قال: قلت: من هذا؟، قالوا: هذا ابو ذر، قال: فقمت إليه فقلت ما شيء سمعتك تقول قبيل، قال: " ما قلت إلا شيئا قد سمعته من نبيهم صلى الله عليه وسلم "، قال: قلت: ما تقول في هذا العطاء؟، قال: " خذه فإن فيه اليوم معونة، فإذا كان ثمنا لدينك فدعه ".وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ ابْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا خُلَيْدٌ الْعَصَرِيُّ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَمَرَّ أَبُو ذَرٍّ وَهُوَ يَقُولُ: " بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِكَيٍّ فِي ظُهُورِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جُنُوبِهِمْ، وَبِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ أَقْفَائِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جِبَاهِهِمْ "، قَالَ: ثُمَّ تَنَحَّى، فَقَعَدَ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا شَيْءٌ سَمِعْتُكَ تَقُولُ قُبَيْلُ، قَالَ: " مَا قُلْتُ إِلَّا شَيْئًا قَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: قُلْتُ: مَا تَقُولُ فِي هَذَا الْعَطَاءِ؟، قَالَ: " خُذْهُ فَإِنَّ فِيهِ الْيَوْمَ مَعُونَةً، فَإِذَا كَانَ ثَمَنًا لِدِينِكَ فَدَعْهُ ".
خلید العصری نے حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ ؒ سے روایت کی انھوں نے کہا میں قریش کی ایک جماعت میں مو جو د تھا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہو ئے گزرے: مال جمع کرنے والوں کو (آگ کے) ان داغوں کی بشارت سنا دو جو ان کی پشتوں پر لگائے جا ئیں گے اور ان کے پہلوؤں سے نکلیں گے اور ان داغوں کی جو ان کی گدیوں کی طرف سے لگا ئے جا ئیں گے اور ان کی پیشا بیوں سے نکلیں گے کہا: پھر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے میں نے پو چھا یہ صاحب کو ن ہیں؟ لو گوں نے بتا یا یہ ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں میں اٹھ کر ان کے پا س چلا گیا اور پو چھا کیا با ت تھی تھوڑی دیر پہلے میں نے سنی آپ کہہ رہے تھے؟انھوں نے جواب دیا میں نے اس بات کے سوا کچھ نہیں کہا جو میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔کہا میں نے پو چھا (حکومت سے ملنے والے) عطیے (وظیفے) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا اسے لے لو کیونکہ آ ج یہ معونت (مدد) سے اور جب یہ تمھا رے دین کی قیمت ٹھہریں تو انھیں چھوڑ دینا۔
احنف بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں قریش کی ایک جماعت میں فروکش تھا کہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہوئے گزرے مال جمع کرنے والوں کو ان داغوں کی خبر دو جو ان کی پشتوں پر لگائے جائیں گےاوران کے پہلوؤں سے نکلیں گے۔ اور داغوں کی جو ان کی گدیوں پر لگائے جائیں گے ان کی پیشانیوں سے نکلیں گے پھر وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ قریشیوں نے بتایا یہ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں میں اٹھ کر ان کے پاس چلا گیا اور پوچھا ابھی آپ کیا کہہ رہے تھے؟ انھوں نے جواب دیا میں نے وہی بات کہی ہے جو میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں نے پوچھا ان وظائف (حکومت کی طرف سے ملنے والے) کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں انھوں نے جواب دیا لے لو کیونکہ آج یہ معونت (مدد) کا باعث ہیں اور جب یہ تیرے دین کی قیمت ٹھہریں تو انھیں چھوڑ دینا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2307
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حکومت سے عطایا اور وظائف اس صورت میں قبول کیے جا سکتے ہیں جب ان کی خاطر اپنا دین فروخت نہ کرنا پڑے، اگر ان کے عوض اپنا دین قربان کرنا پڑے تو یہ لینا جائز نہیں ہوں گےکیونکہ یہ وظائف نہیں بلکہ اس کے دین کو خریدنے کے لیے رشوت اور معاوضہ ہوں گے اور حکومت بڑے بڑے لوگوں کو ساتھ ملانے کے لیے انہیں بڑی بڑی رقموں سے نوازے گی۔ اور اس طرح اپنی سیاہ کاریوں کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرے گی۔