سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
41. باب مَنَاقِبِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضى الله عنه
باب: اسامہ بن زید رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3819
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَا: يَا أُسَامَةُ اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِيٌّ , وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ، فَقَالَ: " أَتَدْرِي مَا جَاءَ بِهِمَا؟ " , قُلْتُ: لَا أَدْرِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكِنِّي أَدْرِي " , فَأَذِنَ لَهُمَا، فَدَخَلَا فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ أَيُّ أَهْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ "، فَقَالَا: مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَهْلِكَ، قَالَ: " أَحَبُّ أَهْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , وَأَنْعَمْتُ عَلَيْهِ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ "، قَالَا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ "، قَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلْتَ عَمَّكَ آخِرَهُمْ، قَالَ: لِأَنَّ عَلِيًّا قَدْ سَبَقَكَ بِالْهِجْرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ وَكَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں علی اور عباس رضی الله عنہما دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، انہوں نے کہا: اسامہ! ہمارے لیے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگو، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:
”کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں؟
“ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا، اس پر نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مجھے تو معلوم ہے
“، پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کے اہل میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:
”فاطمہ بنت محمد
“، تو وہ دونوں بولے: ہم آپ کی اولاد کے متعلق نہیں پوچھتے ہیں، آپ نے فرمایا:
”میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے انعام کیا ہے، اور وہ اسامہ بن زید ہیں
“، وہ دونوں بولے: پھر کون؟ آپ نے فرمایا:
”پھر علی بن ابی طالب ہیں
“، عباس بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا کو پیچھے کر دیا، آپ نے فرمایا:
”علی نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شعبہ: عمر بن ابی سلمہ کو ضعیف قرار دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 123) (ضعیف) (سند میں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کر جاتے تھے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6168) // ضعيف الجامع الصغير (168) باختصار //
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3819 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3819
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عمر بن ابی سلمہ روایت حدیث میں غلطیاں کر جاتے تھے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3819