سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
39. باب وَمِنْ سُورَةِ ص
39. باب: سورۃ ص سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3233
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا سلمة بن شبيب، وعبد بن حميد، قالا: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتاني الليلة ربي تبارك وتعالى في احسن صورة، قال: احسبه قال في المنام، فقال: يا محمد هل تدري فيم يختصم الملا الاعلى؟ قال: قلت: لا، قال: فوضع يده بين كتفي حتى وجدت بردها بين ثديي، او قال: في نحري، فعلمت ما في السماوات وما في الارض، قال: يا محمد هل تدري فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: نعم، قال: في الكفارات، والكفارات: المكث في المساجد بعد الصلوات، والمشي على الاقدام إلى الجماعات، وإسباغ الوضوء في المكاره، ومن فعل ذلك عاش بخير ومات بخير، وكان من خطيئته كيوم ولدته امه، وقال: يا محمد إذا صليت فقل: اللهم إني اسالك فعل الخيرات، وترك المنكرات، وحب المساكين، وإذا اردت بعبادك فتنة فاقبضني إليك غير مفتون، قال: والدرجات إفشاء السلام، وإطعام الطعام، والصلاة بالليل والناس نيام ". قال ابو عيسى: وقد ذكروا بين ابي قلابة، وبين ابن عباس في هذا الحديث رجلا، وقد رواه قتادة، عن ابي قلابة، عن خالد بن اللجلاج، عن ابن عباس.(قدسي) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ: فِي نَحْرِي، فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فِي الْكَفَّارَاتِ، وَالْكَفَّارَاتُ: الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ، قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ إِفْشَاءُ السَّلَامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَكَرُوا بَيْنَ أَبِي قِلَابَةَ، وَبَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ رَجُلًا، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا بزرگ و برتر رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا، مجھے خیال پڑتا ہے کہ آپ نے فرمایا: - خواب میں - رب کریم نے کہا: اے محمد! کیا تمہیں معلوم ہے کہ «ملا ٔ اعلی» (اونچے مرتبے والے فرشتے) کس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا تو اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، یا اپنے سینے میں یا «نحری» کہا، (ہاتھ کندھے پر رکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا، رب کریم نے فرمایا: اے محمد! کیا تم جانتے ہو «ملا ٔ اعلی» میں کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے، (بحث و تکرار ہو رہی ہے)؟ میں نے کہا: ہاں، کفارات گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟) (فرمایا) کفارات یہ ہیں: (۱) نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنا، (۲) پیروں سے چل کر نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانا، (۳) ناگواری کے باوجود باقاعدگی سے وضو کرنا، جو ایسا کرے گا بھلائی کی زندگی گزارے گا، اور بھلائی کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو جائے گا جس طرح وہ اس دن پاک و صاف تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا، رب کریم کہے گا: اے محمد! جب تم نماز پڑھ چکو تو کہو: «اللهم إني أسألك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وإذا أردت بعبادك فتنة فاقبضني إليك غير مفتون» اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتا ہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیئے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے، آپ نے فرمایا: درجات بلند کرنے والی چیزیں (۱) سلام کو پھیلانا عام کرنا ہے، (۲) (محتاج و مسکین) کو کھانا کھلانا ہے، (۳) رات کو تہجد پڑھنا ہے کہ جب لوگ سو رہے ہوں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- کچھ محدثین نے ابوقلابہ اور ابن عباس رضی الله عنہما کے درمیان اس حدیث میں ایک شخص کا ذکر کیا ہے۔ (اور وہ خالد بن لجلاج ہیں ان روایت کے آگے آ رہی ہے)
۲- اس حدیث کو قتادہ نے ابوقلابہ سے روایت کی ہے اور ابوقلابہ نے خالد بن لجلاج سے، اور خالد بن لجلاج نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

وضاحت:
۱؎: مولف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ «ما كان لي من علم بالملإ الأعلى إذ يختصمون» (ص: 69) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5417) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (388)، التعليق الرغيب (1 / 98 - 126)

   جامع الترمذي3234عبد الله بن عباسفيم يختصم الملأ الأعلى قلت في الدرجات والكفارات وفي نقل الأقدام إلى الجماعات وإسباغ الوضوء في المكروهات وانتظار الصلاة بعد الصلاة ومن يحافظ عليهن عاش بخير ومات بخير وكان من ذنوبه كيوم ولدته أمه
   جامع الترمذي3233عبد الله بن عباسهل تدري فيم يختصم الملأ الأعلى قلت نعم قال في الكفارات والكفارات المكث في المساجد بعد الصلوات والمشي على الأقدام إلى الجماعات وإسباغ الوضوء في المكاره ومن فعل ذلك عاش بخير ومات بخير وكان من خطيئته كيوم ولدته أمه اللهم إني أسألك فعل الخيرات وترك الم

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3233 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3233  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں،
اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتا ہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں،
اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے۔

2؎:
مؤلف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ ﴿مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلإِ الأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ﴾  (ص: 69) کی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3233   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3234  
´سورۃ ص سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے میرا رب (خواب میں) بہترین صورت میں نظر آیا، اور اس نے مجھ سے کہا: محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں تیری خدمت میں حاضر و موجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: (میرے) رب! میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت و عزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان (سینے میں) محسوس کی، اور مجھے مشرق و مغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہو گیا، (پھر) کہا: محمد! میں ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3234]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث تو خود مؤلف کے یہاں آ رہی ہے،
اورعبدالرحمن بن عائش رضی اللہ عنہ کی حدیث بغوی کی شرح السنہ میں ہے،
ان عبدالرحمن بن عائش کی صحابیت کے بارے میں اختلاف ہے،
صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابی نہیں ہیں،
معاذ کی اگلی حدیث بھی انہی کے واسطہ سے ہے اور ان کے اور معاذ کے درمیان بھی ایک راوی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3234   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.