(مرفوع) حدثنا هناد، وعلي بن حجر، قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش، عن شرحبيل بن مسلم الخولاني، عن ابي امامة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في الخطبة عام حجة الوداع: " العارية مؤداة والزعيم غارم، والدين مقضي ". قال ابو عيسى: وفي الباب، عن سمرة، وصفوان بن امية، وانس، قال: وحديث ابي امامة حديث حسن غريب، وقد روي عن ابي امامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا من غير هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْخُطْبَةِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَمُرَةَ، وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، وَأَنَسٍ، قَالَ: وَحَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں فرماتے سنا: ”عاریت لی ہوئی چیز لوٹائی جائے گی، ضامن کو تاوان دینا ہو گا اور قرض واجب الاداء ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوامامہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور یہ ابوامامہ کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بھی طریق سے مروی ہے، ۳- اس باب میں سمرہ، صفوان بن امیہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن ابي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " على اليد ما اخذت حتى تؤدي ". قال قتادة: ثم نسي الحسن، فقال: " فهو امينك لا ضمان عليه، يعني العارية ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إلى هذا وقالوا: يضمن صاحب العارية، وهو قول: الشافعي، واحمد، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: ليس على صاحب العارية ضمان، إلا ان يخالف، وهو قول: الثوري، واهل الكوفة، وبه يقول إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ ". قَالَ قَتَادَةُ: ثُمَّ نَسِيَ الْحَسَنُ، فَقَالَ: " فَهُوَ أَمِينُكَ لَا ضَمَانَ عَلَيْهِ، يَعْنِي الْعَارِيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، إِلَى هَذَا وَقَالُوا: يَضْمَنُ صَاحِبُ الْعَارِيَةِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَيْسَ عَلَى صَاحِبِ الْعَارِيَةِ ضَمَانٌ، إِلَّا أَنْ يُخَالِفَ، وَهُوَ قَوْلُ: الْثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق.
سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے“۱؎، قتادہ کہتے ہیں: پھر حسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے ”جس نے عاریت لی ہے“ وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں: عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔ اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 90 (3561)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 5 (2400)، (تحفة الأشراف: 4584)، و مسند احمد (5/12، 13)، وسنن الدارمی/البیوع 56 (2638) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے، عاریت لی ہوئی چیز کی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں، اس بارے میں تین اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ ہر صورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو، ابن عباس، زید بن علی، عطاء، احمد، اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہو گی تو اس کی ذمہ داری اس پر عائد نہ ہو گی، تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کرے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔