سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
68. باب مَا جَاءَ فِي مَطْلِ الْغَنِيِّ أَنَّهُ ظُلْمٌ
باب: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1308
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا اتبع احدكم على ملي، فليتبع ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر، والشريد بن سويد الثقفي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ، فَلْيَتْبَعْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۱؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابن عمر اور شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحوالة 2 (2288)، والاستقراض 12 (2400)، صحیح مسلم/المساقاة 7 (البیوع 28) (1564)، سنن ابی داود/ البیوع 10 (3345)، سنن النسائی/البیوع 100 (4692)، و 101 (4695)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 8 (الأحکام 48)، (2403)، (تحفة الأشراف: 13662)، وط/البیوع 40 (84)، و مسند احمد (2/245، 254، 260، 315، 377، 380، 463، 465)، سنن الدارمی/البیوع 48 (2628) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: قرض کی ادائیگی کے باوجود قرض ادا نہ کرنا ٹال مٹول ہے، بلا وجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا کبیرہ گناہ ہے۔
۲؎: اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کر دینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کر لے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنی چاہیئے، اس میں گویا حسن معاملہ کی ترغیب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2403)
حدیث نمبر: 1309
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن عبد الله الهروي، قال: حدثنا هشيم، قال: حدثنا يونس بن عبيد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا احلت على مليء، فاتبعه، ولا تبع بيعتين في بيعة ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح ومعناه: إذا احيل احدكم على ملي فليتبع، فقال بعض اهل العلم: إذا احيل الرجل على مليء، فاحتاله، فقد برئ المحيل وليس له ان يرجع على المحيل، وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: إذا توي مال هذا بإفلاس المحال عليه فله ان يرجع على الاول، واحتجوا بقول عثمان وغيره، حين قالوا: ليس على مال مسلم توى، قال إسحاق: معنى هذا الحديث ليس على مال مسلم توي هذا إذا احيل الرجل على آخر، وهو يرى انه ملي فإذا هو معدم، فليس على مال مسلم توى.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَى مَلِيءٍ، فَاتْبَعْهُ، وَلَا تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَاهُ: إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى مَلِيءٍ، فَاحْتَالَهُ، فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْمُحِيلِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا تَوِيَ مَالُ هَذَا بِإِفْلَاسِ الْمُحَالِ عَلَيْهِ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْأَوَّلِ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ، حِينَ قَالُوا: لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى، قَالَ إِسْحَاق: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ هَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى آخَرَ، وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ مَلِيٌّ فَإِذَا هُوَ مُعْدِمٌ، فَلَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور جب تم کسی مالدار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کر لو، اور ایک بیع میں دو بیع نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے،
۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کو کسی مالدار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کر لے تو حوالے کرنے والا بری ہو جائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: کہ «محتال علیہ» جس آدمی کی طرف تحویل کیا گیا ہے، کے مفلس ہو جانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہو تو قرض خواہ کے لیے جائز ہو گا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے، ان لوگوں نے اس بات پر عثمان رضی الله عنہ وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے،
۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اس حدیث «ليس على مال مسلم توي» مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیا گیا اور اسے مالدار سمجھ رہا ہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہو گا (اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کر سکتا ہے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصدقات 8 (الأحکام 48)، (2404)، (تحفة الأشراف: 8535)، و مسند احمد (2/71) (صحیح)»

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.