كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 4. باب مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُمْ باب: تاجروں کا ذکر اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ان کے نام رکھنے کا بیان۔
قیس بن ابی غرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم (اس وقت) «سماسرہ» ۱؎ (دلال) کہلاتے تھے، آپ نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے، لہٰذا تم اپنی خرید فروخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیا کرو“ ۲؎۔
۱- قیس بن ابی غرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے منصور نے بسند «الأعمش وحبيب بن أبي ثابت»، اور دیگر کئی لوگوں نے بسند «أبي وائل عن قيس بن أبي غرزة» سے روایت کیا ہے۔ ہم اس کے علاوہ قیس کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، ۳- مؤلف نے بسند «أبو معاوية عن الأعمش عن شقيق بن سلمة وشقيق هو أبو وائل عن قيس بن أبي غرزة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، ۴- یہ حدیث صحیح ہے، ۵- اس باب میں براء بن عازب اور رفاعہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 1 (3326)، سنن النسائی/الأیمان والنذور 22 (3831)، والبیوع 7 (4475)، سنن ابن ماجہ/التجارات 3 (3145)، (تحفة الأشراف: 11103)، مسند احمد (4/6، 280) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «سماسرہ»، «سمسار» کی جمع ہے، یہ عجمی لفظ ہے، چونکہ عرب میں اس وقت عجم زیادہ تجارت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہی لفظ رائج تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے «تجار» کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے، «سمسار» اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدار) کے درمیان دلالی کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2145)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“۔
۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے بروایت ثوری صرف اسی سند سے جانتے ہیں انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے، ۲- اور ابوحمزہ کا نام عبداللہ بن جابر ہے اور وہ بصرہ کے شیخ ہیں - تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3994) (صحیح) (ابن ماجہ (2139) اور مستدرک الحاکم (2142) میں یہ حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں نبيين اور صديقين کا ذکر نہیں ہے، اور اس میں ایک راوی کلثوم بن جوشن ہیں، جس کے بارے میں حاکم کہتے ہیں کہ وہ قلیل الحدیث ہیں، اور بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں کی ہے، اور اور حسن بصری کی مرسل روایت اس حدیث کی شاہد ہے، ابو حاتم الرازی نے ان کو ضعیف الحدیث کہا ہے، اور ابن معین نے لیس بہ بأس، اور امام بخاری نے توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن ان کی حدیث سے ابو سعید خدری کی حدیث جس میں حسن بصری ہیں، کو تقویت مل گئی، اسی وجہ سے البانی صاحب نے ابو سعید خدری کی حدیث کو صحیح لغیرہ کہا، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب 1782، وتراجع الألبانی 525)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف غاية المرام (167)، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2501) //
دوسری سند سے سفیان ثوری نے ابوحمزہ سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف غاية المرام (167)، أحاديث البيوع // ضعيف الجامع الصغير (2501) //
رفاعہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عید گاہ کی طرف نکلے، آپ نے لوگوں کو خرید و فروخت کرتے دیکھا تو فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت!“ تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے لگے اور انہوں نے آپ کی طرف اپنی گردنیں اور نگاہیں اونچی کر لیں، آپ نے فرمایا: ”تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ سے ڈرے نیک کام کرے اور سچ بولے“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسماعیل بن عبید بن رفاعہ کو اسماعیل بن عبیداللہ بن رفاعہ بھی کہا جاتا ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 3 (2146) (ضعیف) (اس کے راوی ”اسماعیل بن عبید بن رفاعہ“ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2146) // ضعيف سنن ابن ماجة (467)، المشكاة (2799)، غاية المرام (138)، ضعيف الجامع الصغير (6405) //
|