(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن محمد بن إسحاق، عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت، " ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المحاقلة، والمزابنة، إلا انه قد اذن لاهل العرايا، ان يبيعوها بمثل خرصها ". قال: وفي الباب، عن ابي هريرة، وجابر. قال ابو عيسى: حديث زيد بن ثابت هكذا روى محمد بن إسحاق هذا الحديث، وروى ايوب، وعبيد الله بن عمر، ومالك بن انس، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى عن المحاقلة، والمزابنة "، وبهذا الإسناد، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " انه رخص في العرايا "، وهذا اصح من حديث محمد بن إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ أَذِنَ لِأَهْلِ الْعَرَايَا، أَنْ يَبِيعُوهَا بِمِثْلِ خَرْصِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، وَرَوَى أَيُّوبُ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ "، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا "، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگا کر اسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث کو محمد بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور ایوب، عبیداللہ بن عمر اور مالک بن انس نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور اسی سند سے ابن عمر نے زید بن ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ اور یہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: عرایا کی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دو ایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دیدے لیکن دینے کے بعد باربار اس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے تو کہے: بھائی اندازہ لگا کر خشک یا تر کھجور ہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑ دو ہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے، اور وہ بھی مسکینوں کو مل رہا ہے اس لیے اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔
۲؎: مطلب یہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے «عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے: محاقلہ اور مزابنہ سے ممانعت کو عرایا والے جملے کے ساتھ روایت کیا ہے، جب کہ ایوب وغیرہ نے «عن نافع، عن ابن عمر» کے طریق سے (یعنی مسند ابن عمر سے) صرف محاقلہ و مزابنہ کی ممانعت والی بات ہی روایت کی ہے، نیز «عن أيوب، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے بھی ایک روایت ہے مگر اس میں محمد بن اسحاق والے حدیث کے دونوں ٹکڑے ایک ساتھ نہیں ہیں، بلکہ صرف «عرایا» والا ٹکڑا ہی ہے، اور بقول مؤلف یہ روایت زیادہ صحیح ہے (یہ روایت آگے آ رہی ہے)۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم میں عرایا کے بیچنے کی اجازت دی ہے یا ایسے ہی کچھ آپ نے فرمایا۔ راوی کو شک ہے کہ حدیث کے یہی الفاظ ہیں یا کچھ فرق ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك، عن داود بن حصين نحوه، وروي هذا الحديث، عن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " ارخص في بيع العرايا في خمسة اوسق، او فيما دون خمسة اوسق ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ نَحْوَهُ، وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَوْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ ".
اس سند سے سابقہ حدیث کی طرح روایت آئی ہے۔ مالک ۱؎ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق میں یا پانچ وسق سے کم میں عرایا کو بیچنے کی اجازت دی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ اسی سند سے اسی حدیث کی تکرار ہے، کیونکہ سبھی کے یہاں یہ حدیث اسی سند ( «مالك، عن داود به») سے مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ارخص في بيع العرايا بخرصها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وحديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند بعض اهل العلم منهم: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقالوا: إن العرايا مستثناة من جملة نهي النبي صلى الله عليه وسلم: " إذ نهى عن المحاقلة، والمزابنة، واحتجوا "، بحديث زيد بن ثابت، وحديث ابي هريرة، وقالوا له: ان يشتري ما دون خمسة اوسق، ومعنى هذا عند بعض اهل العلم، ان النبي صلى الله عليه وسلم اراد التوسعة عليهم في هذا لانهم شكوا إليه، وقالوا: لا نجد ما نشتري من الثمر، إلا بالتمر، فرخص لهم فيما دون خمسة اوسق، ان يشتروها، فياكلوها رطبا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ: الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا: إِنَّ الْعَرَايَا مُسْتَثْنَاةٌ مِنْ جُمْلَةِ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذْ نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَاحْتَجُّوا "، بِحَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَالُوا لَهُ: أَنْ يَشْتَرِيَ مَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ التَّوْسِعَةَ عَلَيْهِمْ فِي هَذَا لِأَنَّهُمْ شَكَوْا إِلَيْهِ، وَقَالُوا: لَا نَجِدُ مَا نَشْتَرِي مِنَ الثَّمَرِ، إِلَّا بِالتَّمْرِ، فَرَخَّصَ لَهُمْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، أَنْ يَشْتَرُوهَا، فَيَأْكُلُوهَا رُطَبًا.
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگا کر عرایا کو بیچنے کی اجازت دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ جس میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی میں شامل ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے من جملہ جن چیزوں سے منع فرمایا ہے اس سے عرایا مستثنیٰ ہے، اس لیے کہ آپ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ان لوگوں نے زید بن ثابت اور ابوہریرہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پانچ وسق سے کم خریدنا جائز ہے، ۳- بعض اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس سلسلہ میں توسع اور گنجائش دینا ہے، اس لیے کہ عرایا والوں نے آپ سے شکایت کی اور عرض کیا کہ خشک کھجور کے سوا ہمیں کوئی اور چیز میسر نہیں جس سے ہم تازہ کھجور خرید سکیں۔ تو آپ نے انہیں پانچ وسق سے کم میں خریدنے کی اجازت دے دی تاکہ وہ تازہ کھجور کھا سکیں۔