كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 1. باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الشُّبُهَاتِ باب: مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان۔
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں“۔ دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اور انہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے کئی رواۃ نے شعبی سے اور شعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 39 (52)، والبیوع 2 (2051)، صحیح مسلم/المساقاة 20 (البیوع 40)، (1599)، سنن ابی داود/ البیوع 3 (3329)، سنن النسائی/البیوع 2 (4458)، سنن ابن ماجہ/الفتن 14 (2984)، (تحفة الأشراف: 11624)، مسند احمد (4/267، 269، 270، 271، 275)، سنن الدارمی/البیوع 1 (2573) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مراد ایسے امور و معاملات ہیں جن کی حلت و حرمت سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں، تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریز کرے، اور جو شخص حلت و حرمت کی پرواہ کئے بغیر ان میں ملوث ہو گیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، اس میں تجارت اور کاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3984)
|