كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 7. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الشِّرَاءِ إِلَى أَجَلٍ باب: کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہو جاتے، شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تو میں نے عرض کیا: کاش! آپ اس کے پاس کسی کو بھیجتے اور اس سے دو کپڑے اس وعدے پر خرید لیتے کہ جب گنجائش ہو گی تو قیمت دے دیں گے، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، تو اس نے کہا: جو وہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جھوٹا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور امانت کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہوں“ ۱؎۔
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اسے شعبہ نے بھی عمارہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے، ۳- ابوداؤد طیالسی کہتے ہیں: ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کر سکتا جب تک کہ تم کھڑے ہو کر حرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سر نہیں چومتے اور حرمی (وہاں) لوگوں میں موجود تھے، انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی، ۴- اس باب میں ابن عباس، انس اور اسماء بنت یزید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 70 (4632)، مسند احمد (6/147) (تحفة الأشراف: 1740) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھار سودا کرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پر استدلال ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح أحاديث البيوع
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ بیس صاع غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے لیا تھا۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 83 (4655)، (تحفة الأشراف: 6228)، سنن الدارمی/البیوع 44 (2624)، مسند احمد (1/236، 361)، وأخرجہ کل من: سنن ابن ماجہ/الرہون 1 (2439)، مسند احمد (1/300) من غیر ہذا الوجہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2239)
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کی روٹی اور پگھلی ہوئی چربی جس میں کچھ تبدیلی آ چکی تھی لے کر چلا، آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع غلے کے عوض جسے آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے لے رکھا تھا گروی رکھی ہوئی تھی ۱؎ قتادہ کہتے ہیں میں نے ایک دن انس رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے پاس ایک صاع کھجور یا ایک صاع غلہ شام کو نہیں ہوتا تھا جب کہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 14 (2069)، والرہون 1 (2508)، سنن ابن ماجہ/الرہون 1 (الأحکام 62)، (2437)، (تحفة الأشراف: 1355) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سے ادھار وغیرہ کا معاملہ کرنا جائز ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں سے کسی سے ادھار لینے کے بجائے ایک یہودی سے اس لیے ادھار لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اہل کتاب سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے، یا اس لیے کہ صحابہ کرام آپ سے کوئی معاوضہ یا رقم واپس لینا پسند نہ فرماتے جبکہ آپ کی طبع غیور کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2437)
|